Job 16

من این سخنان را بسیار شنیده‌ام. تسلّی شما مرا زیادتر عذاب می‌دهد.
ایوب نے جواب دے کر کہا،
من این سخنان را بسیار شنیده‌ام. تسلّی شما مرا زیادتر عذاب می‌دهد.
”اِس طرح کی مَیں نے بہت سی باتیں سنی ہیں، تمہاری تسلی صرف دُکھ درد کا باعث ہے۔
تا به کی به این حرفهای بیهوده ادامه می‌دهید؟ آیا شما باید همیشه حرف آخر را بزنید؟
کیا تمہاری لفاظی کبھی ختم نہیں ہو گی؟ تجھے کیا چیز بےچین کر رہی ہے کہ تُو مجھے جواب دینے پر مجبور ہے؟
اگر من هم به جای شما بودم می‌توانستم چنین سخنانی بگویم و به عنوان اعتراض سر خود را تکان بدهم.
اگر مَیں تمہاری جگہ ہوتا تو مَیں بھی تمہاری جیسی باتیں کر سکتا۔ پھر مَیں بھی تمہارے خلاف پُرالفاظ تقریریں پیش کر کے توبہ توبہ کہہ سکتا۔
امّا من شما را نصیحت می‌کردم و با سخنان گرم، شما را تسلّی می‌دادم.
لیکن مَیں ایسا نہ کرتا۔ مَیں تمہیں اپنی باتوں سے تقویت دیتا، افسوس کے اظہار سے تمہیں تسکین دیتا۔
هرچه بگویم، از درد و رنج من کاسته نمی‌شود و اگر هم ساکت بمانم، دردم دوا نخواهد شد.
لیکن میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہو رہا۔ اگر مَیں بولوں تو مجھے سکون نہیں ملتا، اگر چپ رہوں تو میرا درد دُور نہیں ہوتا۔
زیرا تو ای خدا، مرا از زندگی خسته کرده‌ای و خانواده‌ام را از بین برده‌ای.
لیکن اب اللہ نے مجھے تھکا دیا ہے، اُس نے میرے پورے گھرانے کو تباہ کر دیا ہے۔
تو عرصه را بر من تنگ کردی و دشمن من شدی. من لاغر و استخوانی شده‌ام و مردم این را نتیجهٔ گناهان من می‌دانند.
اُس نے مجھے سکڑنے دیا ہے، اور یہ بات میرے خلاف گواہ بن گئی ہے۔ میری دُبلی پتلی حالت کھڑی ہو کر میرے خلاف گواہی دیتی ہے۔
تو با خشم خود، گوشت بدنم را پاره کرده‌ای، با دیدهٔ نفرت به من نگاه می‌کنی و مرا دشمن خود می‌پنداری.
اللہ کا غضب مجھے پھاڑ رہا ہے، وہ میرا دشمن اور میرا مخالف بن گیا ہے جو میرے خلاف دانت پیس پیس کر مجھے اپنی آنکھوں سے چھید رہا ہے۔
مردم مرا مسخره می‌کنند و به دور من جمع شده به روی من سیلی می‌زنند.
لوگ گلا پھاڑ کر میرا مذاق اُڑاتے، میرے گال پر تھپڑ مار کر میری بےعزتی کرتے ہیں۔ سب کے سب میرے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔
خدا مرا به دست مردم ظالم و شریر سپرده است.
اللہ نے مجھے شریروں کے حوالے کر دیا، مجھے بےدینوں کے چنگل میں پھنسا دیا ہے۔
من زندگی آرام و آسوده‌ای داشتم، امّا او گلوی مرا گرفت و مرا تکه‌تکه کرد. حالا هم مرا هدف خود قرار داده،
مَیں سکون سے زندگی گزار رہا تھا کہ اُس نے مجھے پاش پاش کر دیا، مجھے گلے سے پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا۔ اُس نے مجھے اپنا نشانہ بنا لیا،
تیرهای خود را از هر سو به سوی من پرتاب می‌کند، مرا زخمی می‌کند و رحمی نشان نمی‌دهد.
پھر اُس کے تیراندازوں نے مجھے گھیر لیا۔ اُس نے بےرحمی سے میرے گُردوں کو چیر ڈالا، میرا پِت زمین پر اُنڈیل دیا۔
او مانند یک جنگجو حمله می‌کند و پی‌در‌پی مرا زخمی می‌کند.
بار بار وہ میری قلعہ بندی میں رخنہ ڈالتا رہا، پہلوان کی طرح مجھ پر حملہ کرتا رہا۔
لباس سوگواری پوشیده و در خاک ذلّت نشسته‌ام.
مَیں نے ٹانکے لگا کر اپنی جِلد کے ساتھ ٹاٹ کا لباس جوڑ لیا ہے، اپنی شان و شوکت خاک میں ملائی ہے۔
از بس گریه کرده‌ام، چشمانم سرخ شده و دیدگانم را تاریکی فراگرفته است.
رو رو کر میرا چہرہ سوج گیا ہے، میری پلکوں پر گھنا اندھیرا چھا گیا ہے۔
امّا من شخص شریری نیستم و دعای من از صمیم قلب است.
لیکن وجہ کیا ہے؟ میرے ہاتھ تو ظلم سے بَری رہے، میری دعا پاک صاف رہی ہے۔
ای زمین، خون مرا مپوشان و مگذار فریاد عدالت‌خواهی من خاموش گردد.
اے زمین، میرے خون کو مت ڈھانپنا! میری آہ و زاری کبھی آرام کی جگہ نہ پائے بلکہ گونجتی رہے۔
شاهد من در آسمان است و برای من شفاعت می‌کند.
اب بھی میرا گواہ آسمان پر ہے، میرے حق میں گواہی دینے والا بلندیوں پر ہے۔
دوستان من مسخره‌ام می‌کنند، امّا من سیل اشک را در حضور خدا جاری می‌سازم
میری آہ و زاری میرا ترجمان ہے، مَیں بےخوابی سے اللہ کے انتظار میں رہتا ہوں۔
و پیش او التماس می‌کنم که به عنوان یک دوست به من گوش بدهد و حرفهای مرا بشنود.
میری آہیں اللہ کے سامنے فانی انسان کے حق میں بات کریں گی، اُس طرح جس طرح کوئی اپنے دوست کے حق میں بات کرے۔
زیرا بزودی می‌میرم و به جایی می‌روم که از آنجا امید بازگشت نیست.
کیونکہ تھوڑے ہی سالوں کے بعد مَیں اُس راستے پر روانہ ہو جاؤں گا جس سے واپس نہیں آؤں گا۔