Hebrews 3

بنابراین ای دوستان من، ای مقدّسینی كه در دعوتی آسمانی شریک هستید، به عیسی كه رسول و كاهن اعظم ایمان ماست چشم بدوزید،
مُقدّس بھائیو، جو میرے ساتھ اللہ کے بُلائے ہوئے ہیں! عیسیٰ پر غور و خوض کرتے رہیں جو اللہ کا پیغمبر اور امامِ اعظم ہے اور جس کا ہم اقرار کرتے ہیں۔
تا بدانید چقدر به خدایی كه او را برای انجام این كار برگزید، وفادار بود، همان‌طور كه موسی نیز در تمام خانهٔ خدا وفادار بود.
عیسیٰ اللہ کا وفادار رہا جب اُس نے اُسے یہ کام کرنے کے لئے مقرر کیا، بالکل اُسی طرح جس طرح موسیٰ بھی وفادار رہا جب اللہ کا پورا گھر اُس کے سپرد کیا گیا۔
کسی‌که خانه‌ای بنا می‌کند، بیش از خود خانه سزاوار احترام است، به همین نحو عیسی نیز بیش از موسی شایسته احترام است.
اب جو کسی گھر کو تعمیر کرتا ہے اُسے گھر کی نسبت زیادہ عزت حاصل ہوتی ہے۔ اِسی طرح عیسیٰ موسیٰ کی نسبت زیادہ عزت کے لائق ہے۔
هر خانه البتّه سازنده‌ای دارد، امّا خدا سازندهٔ همهٔ چیزهاست.
کیونکہ ہر گھر کو کسی نہ کسی نے بنایا ہوتا ہے، جبکہ اللہ نے سب کچھ بنایا ہے۔
موسی در تمام خانهٔ خدا مانند یک خادم باوفا خدمت می‌کرد تا دربارهٔ پیامی كه بعدها می‌باید اعلام شود، شهادت دهد.
موسیٰ تو اللہ کے پورے گھر میں خدمت کرتے وقت وفادار رہا، لیکن ملازم کی حیثیت سے تاکہ کلامِ مُقدّس کی آنے والی باتوں کی گواہی دیتا رہے۔
امّا مسیح به عنوان فرزند و صاحب خانه‌ای وفادار است. ما آن خانه هستیم، به شرطی كه آن اعتماد و اطمینانی را كه امید به ما می‌بخشد تا به آخر محكم نگاه داریم.
مسیح فرق ہے۔ اُسے فرزند کی حیثیت سے اللہ کے گھر پر اختیار ہے اور اِسی میں وہ وفادار ہے۔ ہم اُس کا گھر ہیں بشرطیکہ ہم اپنی دلیری اور وہ اُمید قائم رکھیں جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔
زیرا چنانکه روح‌القدس می‌فرماید: «امروز اگر صدای خدا را بشنوید،
چنانچہ جس طرح روح القدس فرماتا ہے، ”اگر تم آج اللہ کی آواز سنو
مانند زمانی‌که در بیابان سركشی می‌کردید، تمرّد نكنید. در آن زمان نیاکان شما در بیابان مرا آزمودند.
تو اپنے دلوں کو سخت نہ کرو جس طرح بغاوت کے دن ہوا، جب تمہارے باپ دادا نے ریگستان میں مجھے آزمایا۔
آری، نیاکان شما با وجود آنكه آنچه در چهل سال كرده بودم دیدند، باز مرا امتحان كردند و آزمودند.
وہاں اُنہوں نے مجھے آزمایا اور جانچا، حالانکہ اُنہوں نے چالیس سال کے دوران میرے کام دیکھ لئے تھے۔
به این سبب به آن قوم خشمگین شدم و گفتم: افكار آنها منحرف است و هرگز راههای مرا نیاموختند
اِس لئے مجھے اُس نسل پر غصہ آیا اور مَیں بولا، ’اُن کے دل ہمیشہ صحیح راہ سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ میری راہیں نہیں جانتے۔‘
و در خشم خود سوگند یاد كردم كه آنها به آرامی من نخواهند رسید.»
اپنے غضب میں مَیں نے قَسم کھائی، ’یہ کبھی اُس ملک میں داخل نہیں ہوں گے جہاں مَیں اُنہیں سکون دیتا‘۔“
ای دوستان من، مواظب باشید در میان شما كسی نباشد كه قلبی آن‌قدر شریر و بی‌ایمان داشته باشد كه از خدای زنده روی‌گردان شود.
بھائیو، خبردار رہیں تاکہ آپ میں سے کسی کا دل بُرائی اور کفر سے بھر کر زندہ خدا سے برگشتہ نہ ہو جائے۔
در عوض، برای آنكه هیچ‌یک از شما فریب گناه را نخورد و متمرّد نشود، باید همیشه تا زمانی‌که كلمهٔ «امروز» را بكار می‌بریم، یكدیگر را تشویق نمایید.
اِس کے بجائے جب تک اللہ کا یہ فرمان قائم ہے روزانہ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ آپ میں سے کوئی بھی گناہ کے فریب میں آ کر سخت دل نہ ہو۔
زیرا اگر ما اعتماد اولیهٔ خود را تا به آخر نگاه داریم با مسیح شریک هستیم،
بات یہ ہے کہ ہم مسیح کے شریکِ کار بن گئے ہیں۔ لیکن اِس شرط پر کہ ہم آخر تک وہ اعتماد مضبوطی سے قائم رکھیں جو ہم آغاز میں رکھتے تھے۔
یا چنانکه كتاب‌مقدّس می‌فرماید: «امروز اگر صدای او را بشنوید، مانند زمانی‌که سركشی كردید، تمرّد نكنید.»
مذکورہ کلام میں لکھا ہے، ”اگر تم آج اللہ کی آواز سنو، تو اپنے دلوں کو سخت نہ کرو جس طرح بغاوت کے دن ہوا۔“
چه كسانی صدای خدا را شنیدند و سركشی كردند؟ آیا همان كسانی نبودند كه با هدایت موسی از مصر بیرون آمدند؟
یہ کون تھے جو اللہ کی آواز سن کر باغی ہو گئے؟ وہ سب جنہیں موسیٰ مصر سے نکال کر باہر لایا۔
و خدا نسبت به چه كسانی مدّت چهل سال خشمگین بود؟ آیا نسبت به همان كسانی نبود كه گناه ورزیدند و در نتیجه اجسادشان در بیابانها افتاد؟
اور یہ کون تھے جن سے اللہ چالیس سال کے دوران ناراض رہا؟ یہ وہی تھے جنہوں نے گناہ کیا اور جو ریگستان میں مر کر وہیں پڑے رہے۔
و خدا برای چه كسانی سوگند یاد كرد كه به آرامی او نخواهند رسید؟ مگر برای كسانی نبود كه به هیچ‌وجه حاضر نشدند به او توکّل نمایند؟
اللہ نے کن کی بابت قَسم کھائی کہ ”یہ کبھی بھی اُس ملک میں داخل نہیں ہوں گے جہاں مَیں اُنہیں سکون دیتا“؟ ظاہر ہے اُن کی بابت جنہوں نے نافرمانی کی تھی۔
پس می‌بینیم كه بی‌ایمانی، مانع ورود آنها به آرامی موعود گردید.
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ملک میں داخل نہ ہو سکے۔