Ecclesiastes 5

وقتی به معبد بزرگ می‌روی مواظب رفتار خود باش، زیرا گوش دادن و یاد گرفتن بهتر از آن قربانی‌ای است که اشخاص نادان می‌گذرانند، ولی خوب را از بد تشخیص نمی‌دهند.
اللہ کے گھر میں جاتے وقت اپنے قدموں کا خیال رکھ اور سننے کے لئے تیار رہ۔ یہ احمقوں کی قربانیوں سے کہیں بہتر ہے، کیونکہ وہ جانتے ہی نہیں کہ غلط کام کر رہے ہیں۔
پیش از آنکه حرفی بزنی خوب فکر کن، در سخنی که می‌گویی عجله منما و در حضور خدا حرف نسنجیده مگو، زیرا او در عالم بالا است و تو بر روی زمین هستی. پس سخنانت خلاصه و کوتاه باشد.
بولنے میں جلدبازی نہ کر، تیرا دل اللہ کے حضور کچھ بیان کرنے میں جلدی نہ کرے۔ اللہ آسمان پر ہے جبکہ تُو زمین پر ہی ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ تُو کم باتیں کرے۔
زحمت و مشقّت زیاد در کار، خواب را پریشان می‌سازد و پُرگویی نشانهٔ نادانی است.
کیونکہ جس طرح حد سے زیادہ محنت مشقت سے خواب آنے لگتے ہیں اُسی طرح بہت باتیں کرنے سے آدمی کی حماقت ظاہر ہوتی ہے۔
هرگاه برای خدا نذری داری، در ادای آن تأخیر منما، زیرا او از مردم نادان بیزار است. به قول خود وفادار باش.
اگر تُو اللہ کے حضور مَنت مانے تو اُسے پورا کرنے میں دیر مت کر۔ وہ احمقوں سے خوش نہیں ہوتا، چنانچہ اپنی مَنت پوری کر۔
بهتر است اصلاً نذر نکنی تا اینکه نذر نموده، ادا ننمایی.
مَنت نہ ماننا مَنت مان کر اُسے پورا نہ کرنے سے بہتر ہے۔
مگذار که سخنان دهانت، تو را به گناه وادار کند و به خادم خدا بگویی که نذر تو اشتباهی بوده است. چرا خدا بر تو خشمگین شود و تمام حاصل کار تو را از بین ببرد؟
اپنے منہ کو اجازت نہ دے کہ وہ تجھے گناہ میں پھنسائے، اور اللہ کے پیغمبر کے سامنے نہ کہہ، ”مجھ سے غیرارادی غلطی ہوئی ہے۔“ کیا ضرورت ہے کہ اللہ تیری بات سے ناراض ہو کر تیری محنت کا کام تباہ کرے؟
خیالات زیاد و سخنان بی‌معنی بیهوده است. انسان باید از خدا بترسد.
جہاں بہت خواب دیکھے جاتے ہیں وہاں فضول باتیں اور بےشمار الفاظ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ کا خوف مان!
اگر می‌بینی که بر مردم مسکین ظلم می‌شود و عدالت و انصاف اجرا نمی‌شود، تعجّب نکن، زیرا بر هر مأمور یک مأمور بالاتر نظارت می‌کند و یک مأمور دیگر و عالی‌تر همگی را تحت نظر خود دارد.
کیا تجھے صوبے میں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو غریبوں پر ظلم کرتے، اُن کا حق مارتے اور اُنہیں انصاف سے محروم رکھتے ہیں؟ تعجب نہ کر، کیونکہ ایک سرکاری ملازم دوسرے کی نگہبانی کرتا ہے، اور اُن پر مزید ملازم مقرر ہوتے ہیں۔
هرکسی از زمین بهره می‌گیرد، حتّی پادشاه هم در آن سهمی‌ دارد.
چنانچہ ملک کے لئے ہر لحاظ سے فائدہ اِس میں ہے کہ ایسا بادشاہ اُس پر حکومت کرے جو کاشت کاری کی فکر کرتا ہے۔
شخص پول دوست، هرگز از پول سیر نمی‌شود و کسی‌که طالب ثروت است هرگز به آنچه دلش می‌خواهد نمی‌رسد. این نیز بیهوده است.
جسے پیسے پیارے ہوں وہ کبھی مطمئن نہیں ہو گا، خواہ اُس کے پاس کتنے ہی پیسے کیوں نہ ہوں۔ جو زردوست ہو وہ کبھی آسودہ نہیں ہو گا، خواہ اُس کے پاس کتنی ہی دولت کیوں نہ ہو۔ یہ بھی باطل ہی ہے۔
هرقدر ثروت زیاد شود به همان اندازه خورندگان آن زیاد می‌شوند. چه چیزی عاید صاحب آن می‌شود جز اینکه آن را به چشمان خود ببیند؟
جتنا مال میں اضافہ ہو اُتنا ہی اُن کی تعداد بڑھتی ہے جو اُسے کھا جاتے ہیں۔ اُس کے مالک کو اُس کا کیا فائدہ ہے سوائے اِس کے کہ وہ اُسے دیکھ دیکھ کر مزہ لے؟
خواب کارگر شیرین است، چه کم خورده باشد، چه زیاد، امّا ثروت شخص دولتمند نمی‌گذارد که او شبها خواب راحت داشته باشد.
کام کاج کرنے والے کی نیند میٹھی ہوتی ہے، خواہ اُس نے کم یا زیادہ کھانا کھایا ہو، لیکن امیر کی دولت اُسے سونے نہیں دیتی۔
مشکل بزرگ دیگری که در این دنیا دیدم این است که شخصی پول ذخیره می‌کند تا در آینده از آن استفاده کند،
مجھے سورج تلے ایک نہایت بُری بات نظر آئی۔ جو دولت کسی نے اپنے لئے محفوظ رکھی وہ اُس کے لئے نقصان کا باعث بن گئی۔
بعد همهٔ اندوختهٔ خود را در یک حادثه از دست می‌دهد و حتّی چیزی برای فرزندانش بجا نمی‌ماند.
کیونکہ جب یہ دولت کسی مصیبت کے باعث تباہ ہو گئی اور آدمی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اُس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔
برهنه از مادر به دنیا آمده‌اند و همان‌طور برهنه از دنیا می‌روند و از ثروت خود چیزی را با خود نمی‌برند.
ماں کے پیٹ سے نکلتے وقت وہ ننگا تھا، اور اِسی طرح کوچ کر کے چلا بھی جائے گا۔ اُس کی محنت کا کوئی پھل نہیں ہو گا جسے وہ اپنے ساتھ لے جا سکے۔
واقعاً جای افسوس است که مردم رنج و زحمت بیهوده می‌کشند، دست خالی آمده‌اند و دست خالی هم می‌روند و نتیجهٔ زحمتشان در پی باد دویدن است.
یہ بھی بہت بُری بات ہے کہ جس طرح انسان آیا اُسی طرح کوچ کر کے چلا بھی جاتا ہے۔ اُسے کیا فائدہ ہوا ہے کہ اُس نے ہَوا کے لئے محنت مشقت کی ہو؟
تمام زندگی آنها در تاریکی و با درد و رنج و خشم سپری می‌شود.
جیتے جی وہ ہر دن تاریکی میں کھانا کھاتے ہوئے گزارتا، زندگی بھر وہ بڑی رنجیدگی، بیماری اور غصے میں مبتلا رہتا ہے۔
به نظر من بهتر است که انسان بخورد و بنوشد و از دوران کوتاه زندگی خود که خدا به او داده و از آنچه که با کار و زحمت خود به دست آورده است لذّت ببرد، چون قسمتش همین است.
تب مَیں نے جان لیا کہ انسان کے لئے اچھا اور مناسب ہے کہ وہ جتنے دن اللہ نے اُسے دیئے ہیں کھائے پیئے اور سورج تلے اپنی محنت مشقت کے پھل کا مزہ لے، کیونکہ یہی اُس کے نصیب میں ہے۔
اگر خدا به کسی ثروت و دارایی می‌بخشد، او باید این بخشش خدا را با شکرگزاری بپذیرد و از آن لذّت ببرد.
کیونکہ جب اللہ کسی شخص کو مال و متاع عطا کر کے اُسے اِس قابل بنائے کہ اُس کا مزہ لے سکے، اپنا نصیب قبول کر سکے اور محنت مشقت کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہو سکے تو یہ اللہ کی بخشش ہے۔
چنین شخصی به دوران کوتاه عمر خود فکر نمی‌کند، چون خدا دل او را از شادی لبریز کرده است.
ایسے شخص کو زندگی کے دنوں پر غور و خوض کرنے کا کم ہی وقت ملتا ہے، کیونکہ اللہ اُسے دل میں خوشی دلا کر مصروف رکھتا ہے۔