Ecclesiastes 2

به خود گفتم: عیش و عشرت را تجربه می‌کنم و از زندگی لذّت می‌برم، امّا دیدم که آن هم بیهوده است.
مَیں نے اپنے آپ سے کہا، ”آ، خوشی کو آزما کر اچھی چیزوں کا تجربہ کر!“ لیکن یہ بھی باطل ہی نکلا۔
همچنین دریافتم که خنده و شادی نیز احمقانه و بی‌فایده است.
مَیں بولا، ”ہنسنا بےہودہ ہے، اور خوشی سے کیا حاصل ہوتا ہے؟“
هرچند از دل مشتاق کسب حکمت بودم، تصمیم گرفتم که خود را با شراب شادمان سازم و حماقت را امتحان کنم و فکر کردم که این بهترین راهی است که انسان می‌تواند، زندگی کوتاه خود را سپری کند.
مَیں نے دل میں اپنا جسم مَے سے تر و تازہ کرنے اور حماقت اپنانے کے طریقے ڈھونڈ نکالے۔ اِس کے پیچھے بھی میری حکمت معلوم کرنے کی کوشش تھی، کیونکہ مَیں دیکھنا چاہتا تھا کہ جب تک انسان آسمان تلے جیتا رہے اُس کے لئے کیا کچھ کرنا مفید ہے۔
کارهای بزرگی انجام دادم. برای خود خانه‌ها ساختم و تاکستانها غرس نمودم.
مَیں نے بڑے بڑے کام انجام دیئے، اپنے لئے مکان تعمیر کئے، تاکستان لگائے،
باغهای پر از گل ساختم و در آنها از هر نوع درخت میوه‌دار نشاندم؛
متعدد باغ اور پارک لگا کر اُن میں مختلف قسم کے پھل دار درخت لگائے۔
و آب انبارهای بزرگ برای آبیاری آنها ساختم.
پھلنے پھولنے والے جنگل کی آب پاشی کے لئے مَیں نے تالاب تیار کروائے۔
غلامان و کنیزان بسیار خریدم و صاحب غلامان و کنیزان خانه‌زاد شدم. هیچ یک از کسانی‌که پیش از من در اورشلیم حکومت می‌کردند، به اندازهٔ من گلّه و رمه و دارایی نداشتند.
مَیں نے غلام اور لونڈیاں خرید لیں۔ ایسے غلام بھی بہت تھے جو گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ مجھے اُتنے گائےبَیل اور بھیڑبکریاں ملیں جتنی مجھ سے پہلے یروشلم میں کسی کو حاصل نہ تھیں۔
نقره و طلا و گنجینه‌های پادشاهانی را که من بر سرزمینشان حکومت می‌کردم، برای خود جمع کردم. سرایندگان مرد و زن برای سرگرمی من می‌سراییدند. هر قدر که دلم می‌خواست، برای خود زنهای زیبا گرفتم.
مَیں نے اپنے لئے سونا چاندی اور بادشاہوں اور صوبوں کے خزانے جمع کئے۔ مَیں نے گلوکار مرد و خواتین حاصل کئے، ساتھ ساتھ کثرت کی ایسی چیزیں جن سے انسان اپنا دل بہلاتا ہے۔
بلی، من شخص بزرگی بودم، بزرگتر از همهٔ کسانی‌که قبل از من در اورشلیم زندگی می‌کردند. در عین حال از حکمت و دانش نیز برخوردار بودم.
یوں مَیں نے بہت ترقی کر کے اُن سب پر سبقت حاصل کی جو مجھ سے پہلے یروشلم میں تھے۔ اور ہر کام میں میری حکمت میرے دل میں قائم رہی۔
هر چیزی که می‌دیدم و می‌خواستم به دست ‌آوردم و خود را از هیچ خوشی و لذّتی محروم ‌نساختم. از هر کاری که می‌کردم، لذّت می‌بردم و همین برای من پاداش بزرگی بود.
جو کچھ بھی میری آنکھیں چاہتی تھیں وہ مَیں نے اُن کے لئے مہیا کیا، مَیں نے اپنے دل سے کسی بھی خوشی کا انکار نہ کیا۔ میرے دل نے میرے ہر کام سے لطف اُٹھایا، اور یہ میری تمام محنت مشقت کا اجر رہا۔
امّا وقتی به کارهایی که کرده بودم و زحماتی که کشیده بودم فکر کردم، فهمیدم که همهٔ آنها چون دویدن دنبال باد، بیهوده و بی‌فایده بوده‌اند.
لیکن جب مَیں نے اپنے ہاتھوں کے تمام کاموں کا جائزہ لیا، اُس محنت مشقت کا جو مَیں نے کی تھی تو نتیجہ یہی نکلا کہ سب کچھ باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ سورج تلے کسی بھی کام کا فائدہ نہیں ہوتا۔
یک پادشاه می‌تواند فقط همان کاری را بکند که پادشاهان پیش از او کرده بودند. بنابراین حکمت و حماقت و جهالت را مطالعه و مقایسه کردم.
پھر مَیں حکمت، بےہودگی اور حماقت پر غور کرنے لگا۔ مَیں نے سوچا، جو آدمی بادشاہ کی وفات پر تخت نشین ہو گا وہ کیا کرے گا؟ وہی کچھ جو پہلے بھی کیا جا چکا ہے!
دیدم، همان‌طور که روشنی بر تاریکی برتری دارد، حکمت هم برتر از جهالت است.
مَیں نے دیکھا کہ جس طرح روشنی اندھیرے سے بہتر ہے اُسی طرح حکمت حماقت سے بہتر ہے۔
شخص حکیم، داناست و می‌داند از چه راهی برود، امّا مرد احمق در نادانی به سر می‌برد. امّا این را هم دانستم که عاقبت هردوی ایشان یکی است.
دانش مند کے سر میں آنکھیں ہیں جبکہ احمق اندھیرے ہی میں چلتا ہے۔ لیکن مَیں نے یہ بھی جان لیا کہ دونوں کا ایک ہی انجام ہے۔
در دل خود گفتم: «چون من و جاهل به یک سرنوشت گرفتار می‌شویم، پس فایدهٔ حکمت چیست؟» هیچ، حکمت هم بیهوده است.
مَیں نے دل میں کہا، ”احمق کا سا انجام میرا بھی ہو گا۔ تو پھر اِتنی زیادہ حکمت حاصل کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ بھی باطل ہے۔“
زمانی می‌رسد که نه یادی از مرد حکیم باقی می‌ماند و نه از مرد احمق، بلکه هر دو فراموش خواهند شد. مرد احمق همان‌گونه می‌میرد که مرد حکیم خواهد مرد.
کیونکہ احمق کی طرح دانش مند کی یاد بھی ہمیشہ تک نہیں رہے گی۔ آنے والے دنوں میں سب کی یاد مٹ جائے گی۔ احمق کی طرح دانش مند کو بھی مرنا ہی ہے!
پس، از زندگی بیزار شدم، چون همه‌چیز آن برایم دردسر آورده است. زندگی تمامش بیهوده و به دنبال باد دویدن بود.
یوں سوچتے سوچتے مَیں زندگی سے نفرت کرنے لگا۔ جو بھی کام سورج تلے کیا جاتا ہے وہ مجھے بُرا لگا، کیونکہ سب کچھ باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔
از تمام زحماتی که در این دنیا کشیده بودم بیزار شدم، زیرا می‌دانم که باید همهٔ آنها رابرای جانشین خود واگذارم.
سورج تلے مَیں نے جو کچھ بھی محنت مشقت سے حاصل کیا تھا اُس سے مجھے نفرت ہو گئی، کیونکہ مجھے یہ سب کچھ اُس کے لئے چھوڑنا ہے جو میرے بعد میری جگہ آئے گا۔
چه کسی می‌داند که او حکیم خواهد بود یا احمق. ولی او صاحب همهٔ چیزهایی خواهد شد که من با رنج و مشقت زیاد در زندگی خود به دست آورده‌ام. این نیز بیهوده است.
اور کیا معلوم کہ وہ دانش مند یا احمق ہو گا؟ لیکن جو بھی ہو، وہ اُن تمام چیزوں کا مالک ہو گا جو حاصل کرنے کے لئے مَیں نے سورج تلے اپنی پوری طاقت اور حکمت صَرف کی ہے۔ یہ بھی باطل ہے۔
بنابراین از تمام زحماتی که در دنیا کشیده‌ام مأیوس گشتم.
تب میرا دل مایوس ہو کر ہمت ہارنے لگا، کیونکہ جو بھی محنت مشقت مَیں نے سورج تلے کی تھی وہ بےکار سی لگی۔
کسی با زحمت فراوان و از روی عقل و دانش و مهارت مال و دارایی می‌اندوزد، سپس همه را برای استفاده کسی بجا می‌گذارد که هرگز برای آن زحمت نکشیده است. این نیز بیهوده و مصیبتی بزرگ است.
کیونکہ خواہ انسان اپنا کام حکمت، علم اور مہارت سے کیوں نہ کرے، آخرکار اُسے سب کچھ کسی کے لئے چھوڑنا ہے جس نے اُس کے لئے ایک اُنگلی بھی نہیں ہلائی۔ یہ بھی باطل اور بڑی مصیبت ہے۔
انسان از این‌همه زحمت و مشقتی که می‌کشد، چه چیزی به دست می‌آورد؟
کیونکہ آخر میں انسان کے لئے کیا کچھ قائم رہتا ہے، جبکہ اُس نے سورج تلے اِتنی محنت مشقت اور کوششوں کے ساتھ سب کچھ حاصل کر لیا ہے؟
روزهایش با تشویش و نگرانی می‌گذرد و شبها هم آرامش ندارد. این نیز بیهوده است.
اُس کے تمام دن دُکھ اور رنجیدگی سے بھرے رہتے ہیں، رات کو بھی اُس کا دل آرام نہیں پاتا۔ یہ بھی باطل ہی ہے۔
پس برای انسان بهتر است که بخورد و بنوشد و از آنچه به دست آورده، لذّت ببرد و این از جانب خداوند است.
انسان کے لئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کھائے پیئے اور اپنی محنت مشقت کے پھل سے لطف اندوز ہو۔ لیکن مَیں نے یہ بھی جان لیا کہ اللہ ہی یہ سب کچھ مہیا کرتا ہے۔
زیرا کیست که بتواند جدا از خدا چیزی بخورد و لذّت ببرد؟
کیونکہ اُس کے بغیر کون کھا کر خوش ہو سکتا ہے؟ کوئی نہیں!
خدا به کسانی‌که او را خشنود می‌سازند، حکمت، دانش و خوشی می‌بخشد، ولی به خطاکاران مشقتِ کار و زحمتِ اندوختن مال را می‌دهد تا خدا آن را از آنها گرفته به کسانی عطا کند که از آنها راضی است. این نیز مانند دنبال باد دویدن، بیهوده است.
جو انسان اللہ کو منظور ہو اُسے وہ حکمت، علم و عرفان اور خوشی عطا کرتا ہے، لیکن گناہ گار کو وہ جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کی ذمہ داری دیتا ہے تاکہ بعد میں یہ دولت اللہ کو منظور شخص کے حوالے کی جائے۔ یہ بھی باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔