Ecclesiastes 10

همان‌طور که مگسهای مُرده شیشه عطر را متعفّن می‌سازند، یک عمل کوچک احمقانه نیز می‌تواند حکمت و عزّت یک شخص را از بین ببرد.
مری ہوئی مکھیاں خوشبودار تیل خراب کرتی ہیں، اور حکمت اور عزت کی نسبت تھوڑی سی حماقت کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔
دل مرد دانا او را مایل به کارهای نیک می‌سازد، امّا دل یک شخص احمق او را به کارهای بد وادار می‌سازد.
دانش مند کا دل صحیح راہ چن لیتا ہے جبکہ احمق کا دل غلط راہ پر آ جاتا ہے۔
آدم احمق حتّی در راه رفتن هم حماقت خود را به هرکس نشان می‌دهد.
راستے پر چلتے وقت بھی احمق سمجھ سے خالی ہے، جس سے بھی ملے اُسے بتاتا ہے کہ وہ بےوقوف ہے ۔
وقتی رئیس شما بر شما خشمگین می‌شود، کار خود را ترک نکنید. اگر در برابر خشم او خونسرد باشید، بسیاری از مشکلات حل می‌شوند.
اگر حکمران تجھ سے ناراض ہو جائے تو اپنی جگہ مت چھوڑ، کیونکہ پُرسکون رویہ بڑی بڑی غلطیاں دُور کر دیتا ہے۔
بدی دیگر هم در این جهان دیدم که در اثر اشتباه حاکمان به وجود می‌آید.
مجھے سورج تلے ایک ایسی بُری بات نظر آئی جو اکثر حکمرانوں سے سرزد ہوتی ہے۔
به اشخاص نادان مقام و منصب عالی داده می‌شود، امّا به ثروتمندان اهمیّتی نمی‌دهند.
احمق کو بڑے عُہدوں پر فائز کیا جاتا ہے جبکہ امیر چھوٹے عُہدوں پر ہی رہتے ہیں۔
غلامان را دیدم که بر اسب سوار هستند و اشخاص نجیب و بزرگ مثل غلامان پیاده می‌روند.
مَیں نے غلاموں کو گھوڑے پر سوار اور حکمرانوں کو غلاموں کی طرح پیدل چلتے دیکھا ہے۔
کسی‌که چاه می‌کند خودش در آن می‌افتد، و آن که دیوار را سوراخ می‌کند مار او را می‌گزد.
جو گڑھا کھودے وہ خود اُس میں گر سکتا ہے، جو دیوار گرا دے ہو سکتا ہے کہ سانپ اُسے ڈسے۔
کسی‌که در معدنِ سنگ کار می‌کند با سنگ زخمی می‌شود و کسی‌که درختی را می‌برد، به وسیلهٔ درخت زخمی می‌شود.
جو کان سے پتھر نکالے اُسے چوٹ لگ سکتی ہے، جو لکڑی چیر ڈالے وہ زخمی ہو جانے کے خطرے میں ہے۔
اگر لبهٔ تبر تیز نباشد قوّت بیشتری لازم دارد و شخص عاقل پیش از شروع کار لبهٔ آن را تیز می‌کند.
اگر کلہاڑی کُند ہو اور کوئی اُسے تیز نہ کرے تو زیادہ طاقت درکار ہے۔ لہٰذا حکمت کو صحیح طور سے عمل میں لا، تب ہی کامیابی حاصل ہو گی۔
قبل از اینکه مار کسی را بگزد، باید آن را افسون کرد.
اگر اِس سے پہلے کہ سپیرا سانپ پر قابو پائے وہ اُسے ڈسے تو پھر سپیرا ہونے کا کیا فائدہ؟
کلام شخص دانا فیض بخش است، امّا سخنان آدم نادان خودش را تباه می‌کند.
دانش مند اپنے منہ کی باتوں سے دوسروں کی مہربانی حاصل کرتا ہے، لیکن احمق کے اپنے ہی ہونٹ اُسے ہڑپ کر لیتے ہیں۔
ابتدای کلامش حماقت است و پایان آن دیوانگی محض.
اُس کا بیان احمقانہ باتوں سے شروع اور خطرناک بےوقوفیوں سے ختم ہوتا ہے۔
شخص احمق زیاد حرف می‌زند. هیچ‌کس نمی‌داند که بعداً چه اتّفاقی خواهد افتاد و هیچ‌کس نمی‌تواند بگوید بعد از مرگ چه خواهد شد.
ایسا شخص باتیں کرنے سے باز نہیں آتا، گو انسان مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ کون اُسے بتا سکتا ہے کہ اُس کے بعد کیا کچھ ہو گا؟
کار آدم نادان را فرسوده می‌کند، به طوری که حتّی نمی‌تواند راه خانهٔ خود را پیدا کند.
احمق کا کام اُسے تھکا دیتا ہے، اور وہ شہر کا راستہ بھی نہیں جانتا۔
افسوس به حال کشوری که پادشاه آن اختیاری از خود نداشته باشد و رهبرانش سحرگاهان بخورند و بنوشند و مست شوند!
اُس ملک پر افسوس جس کا بادشاہ بچہ ہے اور جس کے بزرگ صبح ہی ضیافت کرنے لگتے ہیں۔
خوشا به حال سرزمینی که پادشاهش نجیب‌زاده باشد و رهبران آن به موقع و به اندازه بخورند و بنوشند و مست نکنند!
مبارک ہے وہ ملک جس کا بادشاہ شریف ہے اور جس کے بزرگ نشے میں دُھت نہیں رہتے بلکہ مناسب وقت پر اور نظم و ضبط کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔
در اثر تنبلی سقف خانه چِکه می‌کند و فرو می‌ریزد.
جو سُست ہے اُس کے گھر کے شہتیر جھکنے لگتے ہیں، جس کے ہاتھ ڈھیلے ہیں اُس کی چھت سے پانی ٹپکنے لگتا ہے۔
جشن خوشی می‌آورد و شراب سرمستی، امّا بدون پول هیچ‌کدام را نمی‌توانی داشته باشی.
ضیافت کرنے سے ہنسی خوشی اور مَے پینے سے زندہ دلی پیدا ہوتی ہے، لیکن پیسہ ہی سب کچھ مہیا کرتا ہے۔
به پادشاه حتّی در فکر خود هم دشنام ندهید و حتّی در بستر خود هم شخص ثروتمند را لعنت نکنید، زیرا ممکن است پرنده‌ای سخنان تو را به گوش آنها برساند.
خیالوں میں بھی بادشاہ پر لعنت نہ کر، اپنے سونے کے کمرے میں بھی امیر پر لعنت نہ بھیج، ایسا نہ ہو کہ کوئی پرندہ تیرے الفاظ لے کر اُس تک پہنچائے۔