Daniel 10

در سال سوم شاهنشاهی کوروش، شاهنشاه پارس، دانیال که بلطشصر هم نامیده می‌شد، رؤیای دیگری دید و تعبیر آن به او آشکار شد. این رؤیا درباره یک جنگ بزرگ بود که در آینده رخ می‌داد.
فارس کے بادشاہ خورس کی حکومت کے تیسرے سال میں بیل طَشَضَر یعنی دانیال پر ایک بات ظاہر ہوئی جو یقینی ہے اور جس کا تعلق ایک بڑی مصیبت سے ہے۔ اُسے رویا میں اِس پیغام کی سمجھ حاصل ہوئی۔
من، دانیال، وقتی این رؤیا را دیدم، سه هفته ماتم گرفتم.
اُن دنوں میں مَیں، دانیال تین پورے ہفتے ماتم کر رہا تھا۔
در این مدّت نه غذای کافی خوردم و نه لب به گوشت و شراب زدم و نه موی خود را شانه کردم.
نہ مَیں نے عمدہ کھانا کھایا، نہ گوشت یا مَے میرے ہونٹوں تک پہنچی۔ تین پورے ہفتے مَیں نے ہر خوشبودار تیل سے پرہیز کیا۔
در روز بیست و چهارم ماه اول سال، در کنار رود بزرگ دجله ایستاده بودم.
پہلے مہینے کے 24ویں دن مَیں بڑے دریا دِجلہ کے کنارے پر کھڑا تھا۔
وقتی به بالا نگاه کردم، ناگهان کسی را دیدم که لباس سفید کتانی پوشیده و کمربندی از طلای ناب به کمر بسته بود.
مَیں نے نگاہ اُٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کتان سے ملبّس آدمی کھڑا ہے جس کی کمر میں خالص سونے کا پٹکا بندھا ہوا ہے۔
بدن او مثل جواهر می‌درخشید، رویش برق می‌زد و چشمانش همچون شعله‌های آتش بودند و بازوها و پاهایش مانند برنز صیقلی شده و صدایش شبیه همهمهٔ گروه بی‌شماری از مردم بود.
اُس کا جسم پکھراج جیسا تھا، اُس کا چہرہ آسمانی بجلی کی طرح چمک رہا تھا، اور اُس کی آنکھیں بھڑکتی مشعلوں کی مانند تھیں۔ اُس کے بازو اور پاؤں پالش کئے ہوئے پیتل کی طرح دمک رہے تھے۔ بولتے وقت یوں لگ رہا تھا کہ بڑا ہجوم شور مچا رہا ہے۔
از آن عدّه‌ای که در آنجا ایستاده بودیم، تنها من آن رؤیا را دیدم. همراهان من آن‌قدر ترسیدند که پا به فرار گذاشتند و خود را پنهان کردند.
صرف مَیں، دانیال نے یہ رویا دیکھی۔ میرے ساتھیوں نے اُسے نہ دیکھا۔ توبھی اچانک اُن پر اِتنی دہشت طاری ہوئی کہ وہ بھاگ کر چھپ گئے۔
من تنها ماندم و به آن رؤیای عجیب می‌نگریستم. رنگم پریده بود و تاب و توان نداشتم.
چنانچہ مَیں اکیلا ہی رہ گیا۔ لیکن یہ عظیم رویا دیکھ کر میری ساری طاقت جاتی رہی۔ میرے چہرے کا رنگ ماند پڑ گیا اور مَیں بےبس ہوا۔
وقتی آن مرد با من سخن گفت، رو به خاک افتادم و بیهوش شدم.
پھر وہ بولنے لگا۔ اُسے سنتے ہی مَیں منہ کے بل گر کر مدہوش حالت میں زمین پر پڑا رہا۔
امّا دستی مرا لمس نمود و مرا که دستها و پاهایم می‌لرزیدند، از جا بلند کرد.
تب ایک ہاتھ نے مجھے چھو کر ہلایا۔ اُس کی مدد سے مَیں اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل ہو سکا۔
فرشته به من گفت: «ای دانیال، ای مرد بسیار عزیز خدا، برخیز و به آنچه که می‌خواهم به تو بگویم با دقّت گوش بده! زیرا برای همین امر پیش تو فرستاده شده‌ام.» آنگاه درحالی‌که هنوز می‌لرزیدم بر پا ایستادم.
وہ آدمی بولا، ”اے دانیال، تُو اللہ کے نزدیک بہت گراں قدر ہے! جو باتیں مَیں تجھ سے کروں گا اُن پر غور کر۔ کھڑا ہو جا، کیونکہ اِس وقت مجھے تیرے ہی پاس بھیجا گیا ہے۔“ تب مَیں تھرتھراتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔
سپس به من گفت: «ای دانیال، نترس! زیرا از همان روز اول که در حضور خدای خود روزه گرفتی و از او خواستی که به تو دانش و فهم بدهد، درخواست تو قبول شد و خدا همان روز مرا پیش تو فرستاد.
اُس نے اپنی بات جاری رکھی، ”اے دانیال، مت ڈرنا! جب سے تُو نے سمجھ حاصل کرنے اور اپنے خدا کے سامنے جھکنے کا پورا ارادہ کر رکھا ہے، اُسی دن سے تیری سنی گئی ہے۔ مَیں تیری دعاؤں کے جواب میں آ گیا ہوں۔
امّا فرشته‌ای که بر کشور پارس حکمرانی می‌کند، بیست و یک روز با من مقاومت نمود و مانع آمدن من شد. سرانجام میکائیل، که یکی از فرشتگان اعظم خداست، به کمک من آمد.
لیکن فارسی بادشاہی کا سردار 21 دن تک میرے راستے میں کھڑا رہا۔ پھر میکائیل جو اللہ کے سردار فرشتوں میں سے ایک ہے میری مدد کرنے آیا، اور میری جان فارسی بادشاہی کے اُس سردار کے ساتھ لڑنے سے چھوٹ گئی۔
من توانستم به اینجا بیایم و به تو بگویم که در آینده برای قوم تو چه حادثه‌ای رخ می‌دهد، زیرا این رؤیا را که دیدی مربوط به آینده است.»
مَیں تجھے وہ کچھ سنانے کو آیا ہوں جو آخری دنوں میں تیری قوم کو پیش آئے گا۔ کیونکہ رویا کا تعلق آنے والے وقت سے ہے۔“
در تمام این مدّت سرم را به زیر انداخته و گنگ بودم.
جب وہ میرے ساتھ یہ باتیں کر رہا تھا تو مَیں خاموشی سے نیچے زمین کی طرف دیکھتا رہا۔
آنگاه آن فرشته که شبیه انسان بود، لبهایم را لمس کرد تا بتوانم حرف بزنم. من به او گفتم: «ای آقای من، این رؤیا آن‌قدر مرا ترسانده است که دیگر تاب و توان در من نمانده است.
پھر جو آدمی سا لگ رہا تھا اُس نے میرے ہونٹوں کو چھو دیا، اور مَیں منہ کھول کر بولنے لگا۔ مَیں نے اپنے سامنے کھڑے فرشتے سے کہا، ”اے میرے آقا، یہ رویا دیکھ کر مَیں دردِ زہ میں مبتلا عورت کی طرح پیچ و تاب کھانے لگا ہوں۔ میری طاقت جاتی رہی ہے۔
پس چگونه می‌توانم با تو حرف بزنم؟ قوّت من تمام شده است و به سختی نفس می‌کشم.»
اے میرے آقا، آپ کا خادم کس طرح آپ سے بات کر سکتا ہے؟ میری طاقت تو جواب دے گئی ہے، سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔“
او دوباره مرا لمس کرد و من قوّت یافتم.
جو آدمی سا لگ رہا تھا اُس نے مجھے ایک بار پھر چھو کر تقویت دی
او گفت: «ای مرد بسیار عزیز خدا، نترس و نگران نباش!» وقتی این را گفت، قوّت یافتم و به او گفتم: «ای آقای من، حالا حرف بزن زیرا تو به من نیرو بخشیدی.»
اور بولا، ”اے تُو جو اللہ کی نظر میں گراں قدر ہے، مت ڈرنا! تیری سلامتی ہو۔ حوصلہ رکھ، مضبوط ہو جا!“ جوں ہی اُس نے مجھ سے بات کی مجھے تقویت ملی، اور مَیں بولا، ”اب میرے آقا بات کریں، کیونکہ آپ نے مجھے تقویت دی ہے۔“
او گفت: «می‌دانی چرا پیش تو آمده‌ام؟ من آمده‌ام تا بگویم که در کتاب حقیقت چه نوشته شده است. وقتی از پیش تو بازگردم، به جنگ فرشته‌ای که بر کشور پارس حکومت می‌کند می‌روم. سپس با فرشته‌ای که بر یونان حکومت می‌کند، خواهم جنگید. در این جنگها تنها میکائیل، نگهبان قوم اسرائیل، به من کمک خواهد نمود.»
اُس نے کہا، ”کیا تُو میرے آنے کا مقصد جانتا ہے؟ جلد ہی مَیں دوبارہ فارس کے سردار سے لڑنے چلا جاؤں گا۔ اور اُس سے نپٹنے کے بعد یونان کا سردار آئے گا۔
او گفت: «می‌دانی چرا پیش تو آمده‌ام؟ من آمده‌ام تا بگویم که در کتاب حقیقت چه نوشته شده است. وقتی از پیش تو بازگردم، به جنگ فرشته‌ای که بر کشور پارس حکومت می‌کند می‌روم. سپس با فرشته‌ای که بر یونان حکومت می‌کند، خواهم جنگید. در این جنگها تنها میکائیل، نگهبان قوم اسرائیل، به من کمک خواهد نمود.»
لیکن پہلے مَیں تیرے سامنے وہ کچھ بیان کرتا ہوں جو ’سچائی کی کتاب‘ میں لکھا ہے۔ (اِن سرداروں سے لڑنے میں میری مدد کوئی نہیں کرتا سوائے تمہارے سردار فرشتے میکائیل کے۔