Acts 22

«ای برادران و پدران، به دفاعی كه هم اكنون به عرض شما می‌رسانم توجّه فرمایید.»
”بھائیو اور بزرگو، میری بات سنیں کہ مَیں اپنے دفاع میں کچھ بتاؤں۔“
وقتی آنها دیدند پولس به زبان عبری با ایشان صحبت می‌کند ساكت‌تر شدند و گوش دادند. پولس ادامه داد و گفت:
جب اُنہوں نے سنا کہ وہ اَرامی زبان میں بول رہا ہے تو وہ مزید خاموش ہو گئے۔ پولس نے اپنی بات جاری رکھی۔
«من یک نفر یهودی از اهالی طرسوس قیلیقیه هستم. ولی در این شهر در خدمت غمالائیل پرورش یافتم و شریعت آبا و اجدادی خود را به دقّت آموختم و همین‌طور كه شما امروز نسبت به خدا غیور و متعصّب هستید، من هم بودم.
”مَیں یہودی ہوں اور کلِکیہ کے شہر ترسس میں پیدا ہوا۔ لیکن مَیں نے اِسی شہر یروشلم میں پرورش پائی اور جملی ایل کے زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کی۔ اُنہوں نے مجھے تفصیل اور احتیاط سے ہمارے باپ دادا کی شریعت سکھائی۔ اُس وقت مَیں بھی آپ کی طرح اللہ کے لئے سرگرم تھا۔
و تا سرحد مرگ پیروان این طریقه را آزار می‌رسانیدم و آنان را، چه مرد و چه زن به زندان می‌انداختم.
اِس لئے مَیں نے اِس نئی راہ کے پیروکاروں کا پیچھا کیا اور مردوں اور خواتیں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈلوا دیا یہاں تک کہ مروا بھی دیا۔
كاهن اعظم و تمام اعضای شورای یهود شاهد هستند، زیرا ایشان نامه‌هایی به برادران یهودی در دمشق نوشتند و مرا به آنها معرّفی كردند. پس من به طرف دمشق رفتم تا مسیحیان را دست بسته، برای تنبیه به اورشلیم بیاورم.
امامِ اعظم اور یہودی عدالتِ عالیہ کے ممبران اِس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اُن ہی سے مجھے دمشق میں رہنے والے یہودی بھائیوں کے لئے سفارشی خط مل گئے تاکہ مَیں وہاں بھی جا کر اِس نئے فرقے کے لوگوں کو گرفتار کر کے سزا دینے کے لئے یروشلم لاؤں۔
«امّا وقتی در راه بودم، در حوالی دمشق نزدیک ظهر ناگهان نور عظیمی از آسمان به اطراف من درخشید.
مَیں اِس مقصد کے لئے دمشق کے قریب پہنچ گیا تھا کہ اچانک آسمان کی طرف سے ایک تیز روشنی میرے گرد چمکی۔
من به زمین افتادم و صدایی شنیدم كه می‌گفت: 'ای شائول، شائول، چرا بر من جفا می‌کنی؟'
مَیں زمین پر گر پڑا تو ایک آواز سنائی دی، ’ساؤل، ساؤل، تُو مجھے کیوں ستاتا ہے؟‘
پرسیدم: 'ای خداوند، تو كیستی؟' پاسخ داد: 'من عیسای ناصری هستم كه از تو جفا می‌بینم.'
مَیں نے پوچھا، ’خداوند، آپ کون ہیں؟‘ آواز نے جواب دیا، ’مَیں عیسیٰ ناصری ہوں جسے تُو ستاتا ہے۔‘
همراهان من نور را می‌دیدند امّا صدای كسی را كه با من صحبت می‌کرد، نمی‌شنیدند.
میرے ہم سفروں نے روشنی کو تو دیکھا، لیکن مجھ سے مخاطب ہونے والے کی آواز نہ سنی۔
من عرض كردم: 'خداوندا چه كنم؟' خداوند به من گفت: 'برخیز و به سوی دمشق برو و در آنجا كارهایی كه به تو واگذار می‌شود به تو گفته خواهد شد.'
مَیں نے پوچھا، ’خداوند، مَیں کیا کروں؟‘ خداوند نے جواب دیا، ’اُٹھ کر دمشق میں جا۔ وہاں تجھے وہ سارا کام بتایا جائے گا جو اللہ تیرے ذمے لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘
چون به علّت درخشندگی آن نور من نابینا شده بودم، همراهانم دست مرا گرفتند و مرا با خود به دمشق بردند.
روشنی کی تیزی نے مجھے اندھا کر دیا تھا، اِس لئے میرے ساتھی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے دمشق لے گئے۔
در دمشق شخصی به نام حنانیا زندگی می‌کرد كه مردی خدا ترس، مطیع شریعت، و در بین یهودیان نیک نام بود.
وہاں ایک آدمی رہتا تھا جس کا نام حننیاہ تھا۔ وہ شریعت کا کٹر پیروکار تھا اور وہاں کے رہنے والے یہودیوں میں نیک نام۔
او پیش من آمد و در كنار من ایستاد و گفت: 'ای برادر شائول، بینا شو.' كه فوراً بینا شدم و به او نگاه كردم.
وہ آیا اور میرے پاس کھڑے ہو کر کہا، ’ساؤل بھائی، دوبارہ بینا ہو جائیں!‘ اُسی لمحے مَیں اُسے دیکھ سکا۔
او ادامه داده گفت: 'خدای نیاکان ما تو را برگزیده است تا ارادهٔ او را درک نمایی و بندهٔ عادل او را ببینی و صدای او را از دهان خودش بشنوی،
پھر اُس نے کہا، ’ہمارے باپ دادا کے خدا نے آپ کو اِس مقصد کے لئے چن لیا ہے کہ آپ اُس کی مرضی جان کر اُس کے راست خادم کو دیکھیں اور اُس کے اپنے منہ سے اُس کی آواز سنیں۔
زیرا تو در برابر همهٔ جهانیان شاهد او می‌شوی و به آنچه دیده و شنیده‌ای شهادت خواهی داد.
جو کچھ آپ نے دیکھ اور سن لیا ہے اُس کی گواہی آپ تمام لوگوں کو دیں گے۔
حالا چرا معطل هستی؟ برخیز، تعمید بگیر و به خدا روی آور و از گناهان خود پاک شو.'
چنانچہ آپ کیوں دیر کر رہے ہیں؟ اُٹھیں اور اُس کے نام میں بپتسمہ لیں تاکہ آپ کے گناہ دُھل جائیں۔‘
«وقتی دوباره به اورشلیم آمدم، یک روز در معبد بزرگ دعا می‌کردم كه به حالت خلسه فرو رفتم
جب مَیں یروشلم واپس آیا تو مَیں ایک دن بیت المُقدّس میں گیا۔ وہاں دعا کرتے کرتے مَیں وجد کی حالت میں آ گیا
و در رؤیا عیسی را دیدم كه می‌گفت: 'زود برخیز و اورشلیم را ترک كن. زیرا اهالی این شهر شهادت تو را دربارهٔ من قبول نخواهند كرد.'
اور خداوند کو دیکھا۔ اُس نے فرمایا، ’جلدی کر! یروشلم کو فوراً چھوڑ دے کیونکہ لوگ میرے بارے میں تیری گواہی کو قبول نہیں کریں گے۔‘
گفتم: 'خداوندا اینان می‌دانند كه من همان شخصی هستم كه مؤمنان تو را به زندان می‌انداختم و در کنیسه‌ها آنان را می‌زدم
مَیں نے اعتراض کیا، ’اے خداوند، وہ تو جانتے ہیں کہ مَیں نے جگہ بہ جگہ عبادت خانے میں جا کر تجھ پر ایمان رکھنے والوں کو گرفتار کیا اور اُن کی پٹائی کروائی۔
و وقتی خون آن شاهد تو استیفان ریخته شد، من در آنجا ایستاده بودم و با آن كار موافقت كردم و مواظب لباسهای قاتلان او بودم.'
اور اُس وقت بھی جب تیرے شہید ستفنس کو قتل کیا جا رہا تھا مَیں ساتھ کھڑا تھا۔ مَیں راضی تھا اور اُن لوگوں کے کپڑوں کی نگرانی کر رہا تھا جو اُسے سنگسار کر رہے تھے۔‘
امّا او به من فرمود: 'برو، من تو را به جاهای دور و پیش ملل غیر یهود خواهم فرستاد.'»
لیکن خداوند نے کہا، ’جا، کیونکہ مَیں تجھے دُوردراز علاقوں میں غیریہودیوں کے پاس بھیج دوں گا‘۔“
جمعیّت تا اینجا به او گوش می‌دادند، امّا وقتی این جمله را به زبان آورد، بار دیگر فریاد كردند: «او را بكشید، چنین كسی نباید زنده بماند.»
یہاں تک ہجوم پولس کی باتیں سنتا رہا۔ لیکن اب وہ چلّا اُٹھے، ”اِسے ہٹا دو! اِسے جان سے مار دو! یہ زندہ رہنے کے لائق نہیں!“
در همان وقت كه مردم با هیاهو لباسهای خود را در هوا تكان می‌دادند و گرد و خاک بلند می‌کردند،
وہ چیخیں مار مار کر اپنی چادریں اُتارنے اور ہَوا میں گرد اُڑانے لگے۔
سرهنگ دستور داد، پولس را وارد سربازخانه نمایند و با تازیانه از او بازجویی كنند تا معلوم شود به چه علّت این هیاهو علیه او برپا شده است.
اِس پر کمانڈر نے حکم دیا کہ پولس کو قلعے میں لے جایا جائے اور کوڑے لگا کر اُس کی پوچھ گچھ کی جائے۔ کیونکہ وہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ لوگ کس وجہ سے پولس کے خلاف یوں چیخیں مار رہے ہیں۔
وقتی او را برای شلاق زدن بستند، پولس از سروانی كه آنجا ایستاده بود پرسید: «آیا شما اجازه دارید یک نفر رومی را بدون آنكه محكوم شده باشد، بزنید؟»
جب وہ اُسے کوڑے لگانے کے لئے لے کر جا رہے تھے تو پولس نے ساتھ کھڑے افسر سے کہا، ”کیا آپ کے لئے جائز ہے کہ ایک رومی شہری کے کوڑے لگوائیں اور وہ بھی عدالت میں پیش کئے بغیر؟“
وقتی سروان این را شنید، پیش سرهنگ رفت و گفت: «هیچ می‌دانی چه می‌کنی؟ این مرد یكی از اتباع روم است.»
افسر نے جب یہ سنا تو کمانڈر کے پاس جا کر اُسے اطلاع دی، ”آپ کیا کرنے کو ہیں؟ یہ آدمی تو رومی شہری ہے!“
سرهنگ پیش پولس رفت و از او پرسید: «بگو ببینم، آیا تو رومی هستی؟» پولس گفت: «آری.»
کمانڈر پولس کے پاس آیا اور پوچھا، ”مجھے صحیح بتائیں، کیا آپ رومی شہری ہیں؟“ پولس نے جواب دیا، ”جی ہاں۔“
سرهنگ گفت: «برای به دست آوردن این تابعیت من قیمت گزافی پرداخته‌ام.» پولس گفت: «امّا من با آن به دنیا آمدم.»
کمانڈر نے کہا، ”مَیں تو بڑی رقم دے کر شہری بنا ہوں۔“ پولس نے جواب دیا، ”لیکن مَیں تو پیدائشی شہری ہوں۔“
پس آنها که می‌خواستند از پولس بازجویی كنند، با عجله از آنجا دور شدند و سرهنگ هم، كه به دستور او پولس را بسته بودند، وقتی فهمید او تبعه روم است، بسیار ترسید.
یہ سنتے ہی وہ فوجی جو اُس کی پوچھ گچھ کرنے کو تھے پیچھے ہٹ گئے۔ کمانڈر خود گھبرا گیا کہ مَیں نے ایک رومی شہری کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
در روز بعد چون سرهنگ می‌‌خواست، علّت موضوع و حقیقت امر را بداند، بندهای پولس را باز كرد و دستور داد سران كاهنان و شورای یهود تشكیل جلسه دهند و سپس پولس را به آنجا آورد و از او خواست در برابر آنان بایستد.
اگلے دن کمانڈر صاف معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہودی پولس پر کیوں الزام لگا رہے ہیں۔ اِس لئے اُس نے راہنما اماموں اور یہودی عدالتِ عالیہ کے تمام ممبران کا اجلاس منعقد کرنے کا حکم دیا۔ پھر پولس کو آزاد کر کے قلعے سے نیچے لایا اور اُن کے سامنے کھڑا کیا۔