II Kings 5

پادشاه سوریه، برای نعمان فرماندهٔ ارتش خود، ارزش و احترام فراوان قایل بود. زیرا توسط او خداوند به سوریه پیروزی بخشیده بود. با وجودی که او رزمنده‌ای مقتدر بود، ولی از بیماری جذام رنج می‌برد.
اُس وقت شام کی فوج کا کمانڈر نعمان تھا۔ بادشاہ اُس کی بہت قدر کرتا تھا، اور دوسرے بھی اُس کی خاص عزت کرتے تھے، کیونکہ رب نے اُس کی معرفت شام کے دشمنوں پر فتح بخشی تھی۔ لیکن زبردست فوجی ہونے کے باوجود وہ سنگین جِلدی بیماری کا مریض تھا۔
در این هنگام سپاه سوریه در یکی از حملات خود، دختر جوانی از سرزمین اسرائیل را اسیر کرده برد و او همسر نعمان را خدمت می‌کرد.
نعمان کے گھر میں ایک اسرائیلی لڑکی رہتی تھی۔ کسی وقت جب شام کے فوجیوں نے اسرائیل پر چھاپہ مارا تھا تو وہ اُسے گرفتار کر کے یہاں لے آئے تھے۔ اب لڑکی نعمان کی بیوی کی خدمت کرتی تھی۔
او به بانوی خود گفت: «اگر سرورم نزد نبی‌ای که در سامره است می‌بود، او می‌توانست وی را از جذامش شفا دهد.»
ایک دن اُس نے اپنی مالکن سے بات کی، ”کاش میرا آقا اُس نبی سے ملنے جاتا جو سامریہ میں رہتا ہے۔ وہ اُسے ضرور شفا دیتا۔“
پس نعمان آنچه را که از دختر اسرائیلی شنیده بود، به پادشاه سوریه گفت.
یہ سن کر نعمان نے بادشاہ کے پاس جا کر لڑکی کی بات دہرائی۔
پادشاه گفت: «برو و من نامه‌ای همراه تو به پادشاه اسرائیل خواهم فرستاد.» او رفت و با خود سی هزار تکهٔ نقره، شش هزار تکهٔ طلا و ده دست لباس برد.
بادشاہ بولا، ”ضرور جائیں اور اُس نبی سے ملیں۔ مَیں آپ کے ہاتھ اسرائیل کے بادشاہ کو سفارشی خط بھیج دوں گا۔“ چنانچہ نعمان روانہ ہوا۔ اُس کے پاس تقریباً 340 کلو گرام چاندی، 68 کلو گرام سونا اور 10 قیمتی سوٹ تھے۔
او نامه را نزد پادشاه اسرائیل آورد، متن نامه چنین بود: «به وسیلهٔ این نامه من خدمتگذار خود نعمان را به تو معرّفی می‌کنم تا او را از مرض جذام شفا دهی.»
جو خط وہ ساتھ لے کر گیا اُس میں لکھا تھا، ”جو آدمی آپ کو یہ خط پہنچا رہا ہے وہ میرا خادم نعمان ہے۔ مَیں نے اُسے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ اُسے اُس کی جِلدی بیماری سے شفا دیں۔“
هنگامی‌که پادشاه اسرائیل نامه را خواند، جامهٔ خود را پاره کرد و گفت: «مگر من خدا هستم که مرگ یا زندگی ببخشم که این مرد برای من پیام می‌فرستد که نعمان را از جذام شفا دهم؟ ببینید چگونه بهانه‌جویی می‌کند.»
خط پڑھ کر یورام نے رنجش کے مارے اپنے کپڑے پھاڑے اور پکارا، ”اِس آدمی نے مریض کو میرے پاس بھیج دیا ہے تاکہ مَیں اُسے شفا دوں! کیا مَیں اللہ ہوں کہ کسی کو جان سے ماروں یا اُسے زندہ کروں؟ اب غور کریں اور دیکھیں کہ وہ کس طرح میرے ساتھ جھگڑنے کا موقع ڈھونڈ رہا ہے۔“
امّا هنگامی‌که الیشع مرد خدا شنید که پادشاه اسرائیل جامهٔ خود را پاره کرده است، پیامی برای پادشاه فرستاد: «چرا جامه خود را پاره‌ کرده‌ای؟ بگذار نزد من بیاید تا بداند در اسرائیل نبی‌ای هست.»
جب الیشع کو خبر ملی کہ بادشاہ نے گھبرا کر اپنے کپڑے پھاڑ لئے ہیں تو اُس نے یورام کو پیغام بھیجا، ”آپ نے اپنے کپڑے کیوں پھاڑ لئے؟ آدمی کو میرے پاس بھیج دیں تو وہ جان لے گا کہ اسرائیل میں نبی ہے۔“
پس نعمان با اسب و ارّابه‌اش رفت و در جلوی خانهٔ الیشع ایستاد.
تب نعمان اپنے رتھ پر سوار الیشع کے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔
الیشع خادم خود را فرستاد و به او گفت: «برو خود را هفت بار در رود اردون بشوی تا از مرض خود شفا بیابی.»
الیشع خود نہ نکلا بلکہ کسی کو باہر بھیج کر اطلاع دی، ”جا کر سات بار دریائے یردن میں نہا لیں۔ پھر آپ کے جسم کو شفا ملے گی اور آپ پاک صاف ہو جائیں گے۔“
امّا نعمان با خشم آنجا را ترک کرد و گفت: «من فکر کردم او حداقل نزد من بیرون خواهد آمد و خواهد ایستاد و نام خداوند خدای خود را خواهد خواند و دستش را روی زخم من تکان خواهد داد و جذام من شفا پیدا خواهد کرد.
یہ سن کر نعمان کو غصہ آیا اور وہ یہ کہہ کر چلا گیا، ”مَیں نے سوچا کہ وہ کم از کم باہر آ کر مجھ سے ملے گا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ میرے سامنے کھڑے ہو کر رب اپنے خدا کا نام پکارتا اور اپنا ہاتھ بیمار جگہ کے اوپر ہلا ہلا کر مجھے شفا دیتا۔
آیا رودهای ابانه و فَرفَر دمشق، از همهٔ رودهای اسرائیل بهتر نیستند؟ آیا نمی‌توانستم در آنها شست‌وشو کنم و پاک گردم؟» او بازگشت و با خشم رفت.
کیا دمشق کے دریا ابانہ اور فرفر تمام اسرائیلی دریاؤں سے بہتر نہیں ہیں؟ اگر نہانے کی ضرورت ہے تو مَیں کیوں نہ اُن میں نہا کر پاک صاف ہو جاؤں؟“ یوں بڑبڑاتے ہوئے وہ بڑے غصے میں چلا گیا۔
امّا خدمتکارانش نزد او آمده و گفتند: «اگر نبی از شما می‌خواست کار دشواری را انجام دهید، آیا بجا نمی‌آوردید؟ حالا چرا همان‌طور که او گفته خود را نمی‌شویید تا شفا پیدا کنید؟»
لیکن اُس کے ملازموں نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ”ہمارے آقا، اگر نبی آپ سے کسی مشکل کام کا تقاضا کرتا تو کیا آپ وہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے؟ اب جبکہ اُس نے صرف یہ کہا ہے کہ نہا کر پاک صاف ہو جائیں تو آپ کو یہ ضرور کرنا چاہئے۔“
پس نعمان به رود اردن رفت و هفت بار در آن فرو رفت و طبق کلام مرد خدا شفا یافت و بدنش مانند یک کودک سالم و پاک گردید.
آخرکار نعمان مان گیا اور یردن کی وادی میں اُتر گیا۔ دریا پر پہنچ کر اُس نے سات بار اُس میں ڈُبکی لگائی اور واقعی اُس کا جسم لڑکے کے جسم جیسا صحت مند اور پاک صاف ہو گیا۔
آنگاه او با همهٔ همراهانش نزد مرد خدا بازگشت و در حضور وی ایستاد و گفت: «اکنون می‌دانم که در تمام جهان خدایی به جز خدای اسرائیل نیست. خواهشمندم این هدایا را از خدمتکار خود بپذیرید.»
تب نعمان اپنے تمام ملازموں کے ساتھ مردِ خدا کے پاس واپس گیا۔ اُس کے سامنے کھڑے ہو کر اُس نے کہا، ”اب مَیں جان گیا ہوں کہ اسرائیل کے خدا کے سوا پوری دنیا میں خدا نہیں ہے۔ ذرا اپنے خادم سے تحفہ قبول کریں۔“
امّا الیشع گفت: «به خداوند زنده‌ای که او را خدمت می‌کنم، سوگند که هدیه‌ای از تو نخواهم پذیرفت.» نعمان اصرار کرد که او آن را بپذیرد، امّا او نپذیرفت
لیکن الیشع نے انکار کیا، ”رب کی حیات کی قَسم جس کی خدمت مَیں کرتا ہوں، مَیں کچھ نہیں لوں گا۔“ نعمان اصرار کرتا رہا، توبھی وہ کچھ لینے کے لئے تیار نہ ہوا۔
پس نعمان گفت: «حالا که هدایای مرا نمی‌پذیری، اجازه بده که دو بار قاطر از خاک اینجا به کشورم ببرم، زیرا پس از این قربانی و هدایایی سوختنی به هیچ خدایی به جز خداوند تقدیم نخواهم کرد.
آخرکار نعمان مان گیا۔ اُس نے کہا، ”ٹھیک ہے، لیکن مجھے ذرا ایک کام کرنے کی اجازت دیں۔ مَیں یہاں سے اِتنی مٹی اپنے گھر لے جانا چاہتا ہوں جتنی دو خچر اُٹھا کر لے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ آئندہ مَیں اُس پر رب کو بھسم ہونے والی اور ذبح کی قربانیاں چڑھانا چاہتا ہوں۔ اب سے مَیں کسی اَور معبود کو قربانیاں پیش نہیں کروں گا۔
امیدوارم که خدا هنگامی‌که همراه پادشاه به پرستشگاه رِمون، خدای سوریه می‌روم، مرا ببخشد زیرا پادشاه به بازوی من تکیه می‌کند و هنگامی‌که آنجا سجده می‌کنم خداوند مرا به این خاطر ببخشد.»
لیکن رب مجھے ایک بات کے لئے معاف کرے۔ جب میرا بادشاہ پوجا کرنے کے لئے رِمّون کے مندر میں جاتا ہے تو میرے بازو کا سہارا لیتا ہے۔ یوں مجھے بھی اُس کے ساتھ جھک جانا پڑتا ہے جب وہ بُت کے سامنے اوندھے منہ جھک جاتا ہے۔ رب میری یہ حرکت معاف کر دے۔“
الیشع گفت: «به سلامت برو.» هنگامی‌که نعمان فاصله کمی دور شده بود
الیشع نے جواب دیا، ”سلامتی سے جائیں۔“ نعمان روانہ ہوا
جیحزی، خدمتکار الیشع با خود اندیشید: «سرورم بدون اینکه هدایا را بپذیرد، اجازه داد نعمان برود! به خدای زنده سوگند که دنبال او خواهم دوید و چیزی از او خواهم گرفت.»
تو کچھ دیر کے بعد الیشع کا نوکر جیحازی سوچنے لگا، ”میرے آقا نے شام کے اِس بندے نعمان پر حد سے زیادہ نرم دلی کا اظہار کیا ہے۔ چاہئے تو تھا کہ وہ اُس کے تحفے قبول کر لیتا۔ رب کی حیات کی قَسم، مَیں اُس کے پیچھے دوڑ کر کچھ نہ کچھ اُس سے لے لوں گا۔“
پس جیحزی به ‌دنبال نعمان رفت. هنگامی‌که نعمان دید که کسی به دنبال او می‌دود از ارابهٔ خود پایین پرید و به استقبالش آمد و گفت: «آیا اتّفاق بدی افتاده است؟»
چنانچہ جیحازی نعمان کے پیچھے بھاگا۔ جب نعمان نے اُسے دیکھا تو وہ رتھ سے اُتر کر جیحازی سے ملنے گیا اور پوچھا، ”کیا سب خیریت ہے؟“
جیحزی پاسخ داد: «نه، امّا سرورم مرا فرستاد تا به شما بگویم که دو نفر از گروه انبیای منطقهٔ کوهستانی افرایم رسیده‌اند و او می‌خواهد که شما به آنها سه هزار تکهٔ نقره و دو دست لباس بدهید.»
جیحازی نے جواب دیا، ”جی، سب خیریت ہے۔ میرے آقا نے مجھے آپ کو اطلاع دینے بھیجا ہے کہ ابھی ابھی نبیوں کے گروہ کے دو جوان افرائیم کے پہاڑی علاقے سے میرے پاس آئے ہیں۔ مہربانی کر کے اُنہیں 34 کلو گرام چاندی اور دو قیمتی سوٹ دے دیں۔“
نعمان گفت: «خواهش می‌کنم شش هزار تکهٔ نقره بگیرید.» و اصرار کرد و آنها را در دو کیسه گذاشت و با دو دست لباس به دو نفر از خدمتکارانش داد و آنها را جلوتر از جیحزی روانه کرد.
نعمان بولا، ”ضرور، بلکہ 68 کلو گرام چاندی لے لیں۔“ اِس بات پر وہ بضد رہا۔ اُس نے 68 کلو گرام چاندی بوریوں میں لپیٹ لی، دو سوٹ چن لئے اور سب کچھ اپنے دو نوکروں کو دے دیا تاکہ وہ سامان جیحازی کے آگے آگے لے چلیں۔
هنگامی‌که آنها به تپّه‌ای که الیشع در آن زندگی می‌کرد رسیدند، جیحزی دو کیسهٔ نقره به داخل خانه برد و سپس خدمتکاران نعمان را بازگرداند.
جب وہ اُس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جہاں الیشع رہتا تھا تو جیحازی نے سامان نوکروں سے لے کر اپنے گھر میں رکھ چھوڑا، پھر دونوں کو رُخصت کر دیا۔
او به درون خانه رفت و الیشع از وی پرسید: «کجا بودی؟» او پاسخ داد: «سرورم هیچ کجا.»
پھر وہ جا کر الیشع کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ الیشع نے پوچھا، ”جیحازی، تم کہاں سے آئے ہو؟“ اُس نے جواب دیا، ”مَیں کہیں نہیں گیا تھا۔“
امّا الیشع گفت: «آیا هنگامی‌که آن مرد از ارّابه‌اش به استقبال تو آمد روح من آنجا نبود؟ اکنون زمانی نیست که پول و لباس، باغهای زیتون و تاکستانها، گوسفند و گلّه و خدمتکار پذیرفت!
لیکن الیشع نے اعتراض کیا، ”کیا میری روح تمہارے ساتھ نہیں تھی جب نعمان اپنے رتھ سے اُتر کر تم سے ملنے آیا؟ کیا آج چاندی، کپڑے، زیتون اور انگور کے باغ، بھیڑبکریاں، گائےبَیل، نوکر اور نوکرانیاں حاصل کرنے کا وقت تھا؟
پس اکنون بیماری نعمان بر تو خواهد آمد و تو و فرزندانت برای همیشه به آن دچار خواهید بود.» هنگامی‌که جیحزی رفت، به بیماری دچار شده پوستش مانند برف سفید بود.
اب نعمان کی جِلدی بیماری ہمیشہ تک تمہیں اور تمہاری اولاد کو لگی رہے گی۔“ جب جیحازی کمرے سے نکلا تو جِلدی بیماری اُسے لگ چکی تھی۔ وہ برف کی طرح سفید ہو گیا تھا۔