II Chronicles 25

امصیا در سن بیست و پنج سالگی به سلطنت رسید و مدّت بیست و نه سال در اورشلیم پادشاهی کرد. نام مادرش یهوعدان و از اهالی اورشلیم بود.
اَمصیاہ 25 سال کی عمر میں بادشاہ بنا اور یروشلم میں اُس کی حکومت کا دورانیہ 29 سال تھا۔ اُس کی ماں یہوعدان یروشلم کی رہنے والی تھی۔
او آنچه را از نظر خداوند درست بود، انجام داد امّا نه از صمیم قلب.
جو کچھ اَمصیاہ نے کیا وہ رب کو پسند تھا، لیکن وہ پورے دل سے رب کی پیروی نہیں کرتا تھا۔
بعد از اینکه حکومت او استوار گشت بدون درنگ خدمتگذارانی که پدرش را کشته بودند، اعدام کرد.
جوں ہی اُس کے پاؤں مضبوطی سے جم گئے اُس نے اُن افسروں کو سزائے موت دی جنہوں نے باپ کو قتل کر دیا تھا۔
امّا او فرزندان ایشان را نکشت، بلکه از قوانینی که خداوند به موسی داده بود پیروی کرد که می‌گوید: «والدین نباید به‌خاطر جنایت فرزندان خود کشته شوند و همچنین فرزندان نباید به‌خاطر جنایت والدین خود کشته شوند، بلکه هرکسی باید برای جنایتی که مرتکب شده کشته شود.»
لیکن اُن کے بیٹوں کو اُس نے زندہ رہنے دیا اور یوں موسوی شریعت کے تابع رہا جس میں رب فرماتا ہے، ”والدین کو اُن کے بچوں کے جرائم کے سبب سے سزائے موت نہ دی جائے، نہ بچوں کو اُن کے والدین کے جرائم کے سبب سے۔ اگر کسی کو سزائے موت دینی ہو تو اُس گناہ کے سبب سے جو اُس نے خود کیا ہے۔“
امصیای پادشاه تمام مردان طایفه‌های یهودا و بنیامین را سازماندهی کرد و در گردانهای ارتش گماشت و برطبق طایفه‌ها، فرماندهانی برای گروههای صد نفری و هزار نفری برگزید، که شامل مردان بیست سال به بالا بود و تعدادشان سیصد هزار نفر بود. ایشان مردانی بارز و آماده نبرد بودند و در استفاده از نیزه و سپر مهارت داشتند.
اَمصیاہ نے یہوداہ اور بن یمین کے قبیلوں کے تمام مردوں کو بُلا کر اُنہیں خاندانوں کے مطابق ترتیب دیا۔ اُس نے ہزار ہزار اور سَو سَو فوجیوں پر افسر مقرر کئے۔ جتنے بھی مرد 20 یا اِس سے زائد سال کے تھے اُن سب کی بھرتی ہوئی۔ اِس طرح 3,00,000 فوجی جمع ہوئے۔ سب بڑی ڈھالوں اور نیزوں سے لیس تھے۔
علاوه براین او صد هزار مزدور از اسرائیل به بهایی معادل سه هزار و چهارصد کیلوگرم نقره اجیر کرد.
اِس کے علاوہ اَمصیاہ نے اسرائیل کے 1,00,000 تجربہ کار فوجیوں کو اُجرت پر بھرتی کیا تاکہ وہ جنگ میں مدد کریں۔ اُنہیں اُس نے چاندی کے تقریباً 3,400 کلو گرام دیئے۔
امّا نبی‌ای نزد پادشاه رفت و به وی گفت: «این مزدوران اسرائیلی را همراه مبر، زیرا خداوند با این مردان که از قسمت شمالی کشور هستند، نیست.
لیکن ایک مردِ خدا نے اَمصیاہ کے پاس آ کر اُسے سمجھایا، ”بادشاہ سلامت، لازم ہے کہ یہ اسرائیلی فوجی آپ کے ساتھ مل کر لڑنے کے لئے نہ نکلیں۔ کیونکہ رب اُن کے ساتھ نہیں ہے، وہ افرائیم کے کسی بھی رہنے والے کے ساتھ نہیں ہے۔
تو ممکن است که فکر کنی که این مردان در نبرد تو را نیرومندتر خواهند کرد، امّا این خداست که قدرت دارد به انسان پیروزی یا شکست دهد. اوست که دشمنان تو را بر تو غالب خواهد کرد.»
اگر آپ اُن کے ساتھ مل کر نکلیں تاکہ مضبوطی سے دشمن سے لڑیں تو اللہ آپ کو دشمن کے سامنے گرا دے گا۔ کیونکہ اللہ کو آپ کی مدد کرنے اور آپ کو گرانے کی قدرت حاصل ہے۔“
امصیا از نبی پرسید «پس در مورد آن نقره‌ای که در ازای ایشان پرداخته‌ام چه کنم؟» نبی پاسخ داد: «خداوند می‌تواند بیشتر از آن به تو بدهد.»
اَمصیاہ نے اعتراض کیا، ”لیکن مَیں اسرائیلیوں کو چاندی کے 3,400 کلو گرام ادا کر چکا ہوں۔ اِن پیسوں کا کیا بنے گا؟“ مردِ خدا نے جواب دیا، ”رب آپ کو اِس سے کہیں زیادہ عطا کر سکتا ہے۔“
پس امصیا مزدوران اسرائیلی را روانه خانه‌های خود کرد. این باعث شد که خشم آنها نسبت به یهودا برانگیخته شود و ایشان بسیار خشمگین به خانه‌های خود بازگشتند.
چنانچہ اَمصیاہ نے افرائیم سے آئے ہوئے تمام فوجیوں کو فارغ کر کے واپس بھیج دیا، اور وہ یہوداہ سے بہت ناراض ہوئے۔ ہر ایک بڑے طیش میں اپنے اپنے گھر چلا گیا۔
امصیا با شجاعت ارتش خود را به درّهٔ نمک رهبری کرد و در آنجا ده هزار سرباز اَدومی را کشتند،
توبھی اَمصیاہ جرٲت کر کے جنگ کے لئے نکلا۔ اپنی فوج کو نمک کی وادی میں لے جا کر اُس نے ادومیوں پر فتح پائی۔ اُن کے 10,000 مرد میدانِ جنگ میں مارے گئے۔
و ده هزار نفر را هم اسیر گرفتند، ایشان اسیران را به بالای پرتگاهی بردند و از آنجا به پایین افکندند و ایشان در روی صخره‌های پایین جان سپردند.
دشمن کے مزید 10,000 آدمیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہوداہ کے فوجیوں نے قیدیوں کو ایک اونچی چٹان کی چوٹی پر لے جا کر نیچے گرا دیا۔ اِس طرح سب پاش پاش ہو کر ہلاک ہوئے۔
در این ضمن مزدوران اسرائیلی که امصیا به ایشان اجازه نداده بود همراه او به جنگ بروند، به شهرهای یهودا، از سامره تا بیت حورون، حمله کردند و سه هزار نفر را کشتند و مقدار زیادی اموال، به تاراج بردند.
اِتنے میں فارغ کئے گئے اسرائیلی فوجیوں نے سامریہ اور بیت حَورون کے بیچ میں واقع یہوداہ کے شہروں پر حملہ کیا تھا۔ لڑتے لڑتے اُنہوں نے 3,000 مردوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا اور بہت سا مال لُوٹ لیا تھا۔
هنگامی‌که امصیا پس از شکست اَدومی‌ها بازگشت، بُتهای ایشان را با خود آورد و آنها را برپا کرد و ستایش نمود و برای آنها قربانی سوزاندنی گذرانید.
ادومیوں کو شکست دینے کے بعد اَمصیاہ سعیر کے باشندوں کے بُتوں کو لُوٹ کر اپنے گھر واپس لایا۔ وہاں اُس نے اُنہیں کھڑا کیا اور اُن کے سامنے اوندھے منہ جھک کر اُنہیں قربانیاں پیش کیں۔
خداوند از امصیا خشمگین شد و نبی‌ای نزد او فرستاد. نبی از امصیا پرسید: «چرا خدایان بیگانگانی را که حتّی نتوانستند مردم خود را از دست تو رهایی دهند، پرستش کردی؟»
یہ دیکھ کر رب اُس سے بہت ناراض ہوا۔ اُس نے ایک نبی کو اُس کے پاس بھیجا جس نے کہا، ”تُو اِن دیوتاؤں کی طرف کیوں رجوع کر رہا ہے؟ یہ تو اپنی قوم کو تجھ سے نجات نہ دلا سکے۔“
درحالی‌که نبی سخن می‌گفت، پادشاه به او گفت: «آیا ما تو را مشاور سلطنتی کرده‌ایم؟ ساکت باش. آیا می‌خواهی کشته شوی؟» پس نبی ساکت شد، امّا گفت: «من می‌دانم که خداوند قصد دارد تو را نابود کند، زیرا تو چنین کرده‌ای و به پند من گوش نداد‌ه‌ای.»
اَمصیاہ نے نبی کی بات کاٹ کر کہا، ”ہم نے کب سے تجھے بادشاہ کا مشیر بنا دیا ہے؟ خاموش، ورنہ تجھے مار دیا جائے گا۔“ نبی نے خاموش ہو کر اِتنا ہی کہا، ”مجھے معلوم ہے کہ اللہ نے آپ کو آپ کی اِن حرکتوں کی وجہ سے اور اِس لئے کہ آپ نے میرا مشورہ قبول نہیں کیا تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔“
امصیای پادشاه و مشاوران او علیه اسرائیل نقشه کشیدند. او برای یهوآش، پادشاه اسرائیل پسر یهوآخاز، نوه ییهو، پیام فرستاد و او را به نبرد خواند.
ایک دن یہوداہ کے بادشاہ اَمصیاہ نے اپنے مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد یوآس بن یہوآخز بن یاہو کو پیغام بھیجا، ”آئیں، ہم ایک دوسرے کا مقابلہ کریں!“
یهوآش پادشاه اسرائیل برای امصیا، پادشاه یهودا چنین پاسخ فرستاد: «روزگاری بوته خاری در لبنان برای درخت سرو چنین پیام فرستاد: دختر خود را به همسری پسر من درآور. ولی حیوانی وحشی که از آنجا می‌گذشت بوتهٔ خار را لگد مال کرد.
لیکن اسرائیل کے بادشاہ یوآس نے جواب دیا، ”لبنان میں ایک کانٹےدار جھاڑی نے دیودار کے ایک درخت سے بات کی، ’میرے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ باندھو۔‘ لیکن اُسی وقت لبنان کے جنگلی جانوروں نے اُس کے اوپر سے گزر کر اُسے پاؤں تلے کچل ڈالا۔
اکنون امصیا تو از شکست اَدومی‌ها مغرور شده‌ای، امّا من به تو توصیه می‌کنم که در سرزمین خود بمانی، چرا دنبال درد سر می‌گردی تا موجب مصیبت برای تو و مردم تو شود؟»
ادوم پر فتح پانے کے سبب سے آپ کا دل مغرور ہو کر مزید شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں رہیں۔ آپ ایسی مصیبت کو کیوں دعوت دیتے ہیں جو آپ اور یہوداہ کی تباہی کا باعث بن جائے؟“
امّا امصیا گوش فرا نداد. این ارادهٔ خدا بود تا او شکست بخورد، چون او بُتهای اَدومی‌ها را پرستش کرده بود.
لیکن اَمصیاہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اللہ اُسے اور اُس کی قوم کو اسرائیلیوں کے حوالے کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اُنہوں نے ادومیوں کے دیوتاؤں کی طرف رجوع کیا تھا۔
پس یهوآش، پادشاه اسرائیل به جنگ امصیا، پادشاه یهودا رفت. ایشان در بیت شمس، در سرزمین یهودا با هم روبه‌رو شدند.
تب اسرائیل کا بادشاہ یوآس اپنی فوج لے کر یہوداہ پر چڑھ آیا۔ بیت شمس کے پاس اُس کا یہوداہ کے بادشاہ اَمصیاہ کے ساتھ مقابلہ ہوا۔
ارتش یهودا شکست خورد و سربازان به خانه‌های خود گریختند.
اسرائیلی فوج نے یہوداہ کی فوج کو شکست دی، اور ہر ایک اپنے اپنے گھر بھاگ گیا۔
یوآش، پادشاه اسرائیل امصیا را دستگیر کرد و او را به اورشلیم برد. آنجا او دیوار شهر اورشلیم را از دروازهٔ افرایم تا دروازهٔ زاویه، به طول صد و هشتاد متر ویران کرد.
اسرائیل کے بادشاہ یوآس نے یہوداہ کے بادشاہ اَمصیاہ بن یوآس بن اخزیاہ کو وہیں بیت شمس میں گرفتار کر لیا۔ پھر وہ اُسے یروشلم لایا اور شہر کی فصیل افرائیم نامی دروازے سے لے کر کونے کے دروازے تک گرا دی۔ اِس حصے کی لمبائی تقریباً 600 فٹ تھی۔
او تمام طلا و نقره و لوازم معبد بزرگ را که عوبید اَدوم از آنها نگهداری می‌کرد و همچنین موجودی خزانهٔ کاخ پادشاه را همراه با عدّه‌ای گروگان با خود به سامره برد.
جتنا بھی سونا، چاندی اور قیمتی سامان رب کے گھر اور شاہی محل کے خزانوں میں تھا اُسے اُس نے پورے کا پورا چھین لیا۔ اُس وقت عوبید ادوم رب کے گھر کے خزانے سنبھالتا تھا۔ یوآس لُوٹا ہوا مال اور بعض یرغمالوں کو لے کر سامریہ واپس چلا گیا۔
امصیا، پسر یهوآش پادشاه یهودا، بعد از وفات یهوآش، پسر یهوآخاز پادشاه اسرائیل، پانزده سال دیگر زندگی کرد.
اسرائیل کے بادشاہ یوآس بن یہوآخز کی موت کے بعد یہوداہ کا بادشاہ اَمصیاہ بن یوآس مزید 15 سال جیتا رہا۔
بقیّهٔ وقایع دوران سلطنت امصیا، از آغاز تا پایان، در کتاب تاریخ پادشاهان یهودا و اسرائیل نوشته شده‌اند.
باقی جو کچھ اَمصیاہ کی حکومت کے دوران ہوا وہ شروع سے لے کر آخر تک ’شاہانِ اسرائیل و یہوداہ‘ کی کتاب میں درج ہے۔
زمانی که امصیا از پیروی خداوند دست کشید، مردم مخالف او شدند و سرانجام به ضد او توطئه چیدند و او به شهر لاکیش گریخت، امّا آنها به دنبال او به لاکیش رفتند و او را در آنجا کشتند.
جب سے وہ رب کی پیروی کرنے سے باز آیا اُس وقت سے لوگ یروشلم میں اُس کے خلاف سازش کرنے لگے۔ آخرکار اُس نے فرار ہو کر لکیس میں پناہ لی، لیکن سازش کرنے والوں نے اپنے لوگوں کو اُس کے پیچھے بھیجا، اور وہ وہاں اُسے قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
جسد او را با اسبی به اورشلیم آوردند و در شهر داوود در آرامگاه سلطنتی به خاک سپردند.
اُس کی لاش گھوڑے پر اُٹھا کر یہوداہ کے شہر یروشلم لائی گئی جہاں اُسے خاندانی قبر میں دفنایا گیا۔