I Samuel 30

روز سوم داوود و همراهانش به صقلغ آمدند و دیدند که عمالقه به جنوب حمله کرده، شهر صقلغ را آتش زده‌اند
تیسرے دن جب داؤد صِقلاج پہنچا تو دیکھا کہ شہر کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ اُن کی غیرموجودگی میں عمالیقیوں نے دشتِ نجب میں آ کر صِقلاج پر بھی حملہ کیا تھا۔ شہر کو جلا کر
و زنها و کودکان را اسیر کرده با خود برده‌اند، امّا کسی را نکشته‌اند.
وہ تمام باشندوں کو چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ لیکن کوئی ہلاک نہیں ہوا تھا بلکہ وہ سب کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
داوود و همراهانش وقتی آن صحنه را دیدند و پی‌بردند که شهر به خاکستر تبدیل شده و زنان و پسران و دخترانشان را به اسارت برده‌اند،
چنانچہ جب داؤد اور اُس کے آدمی واپس آئے تو دیکھا کہ شہر بھسم ہو گیا ہے اور تمام بال بچے چھن گئے ہیں۔
آن‌قدر گریه کردند که دیگر توان گریه کردن نداشتند.
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، اِتنے روئے کہ آخرکار رونے کی سکت ہی نہ رہی۔
دو زن داوود، اخینوعم یزرعیلی و ابیجایل زن نابال کرملی هم جزو اسیران بودند.
داؤد کی دو بیویوں اخی نوعم یزرعیلی اور ابی جیل کرملی کو بھی اسیر کر لیا گیا تھا۔
داوود با مشکل بزرگی روبه‌رو شده بود، زیرا مردها به‌خاطر از دست دادن زن و فرزندانشان بشدّت ناراحت شده بودند و می‌خواستند داوود را سنگسار کنند. امّا خداوند خدای داوود، او را تقویت نمود.
داؤد کی جان بڑے خطرے میں آ گئی، کیونکہ اُس کے مرد غم کے مارے آپس میں اُسے سنگسار کرنے کی باتیں کرنے لگے۔ کیونکہ بیٹے بیٹیوں کے چھن جانے کے باعث سب سخت رنجیدہ تھے۔ لیکن داؤد نے رب اپنے خدا میں پناہ لے کر تقویت پائی۔
داوود به ابیاتار کاهن، پسر اخیملک گفت: «جامهٔ مخصوص کاهنان را برای من بیاور!» و ابیاتار آن را برایش آورد.
اُس نے ابیاتر بن اخی مَلِک کو حکم دیا، ”قرعہ ڈالنے کے لئے امام کا بالاپوش لے آئیں۔“ جب امام بالاپوش لے آیا
آنگاه داوود از خداوند پرسید: «آیا به تعقیب آنها بروم؟ آیا می‌توانم به آنها برسم؟» خداوند جواب داد: «بلی، برو و آنها تعقیب کن چون به آنها می‌رسی و آنچه را که گرفته‌اند، پس خواهی گرفت.»
تو داؤد نے رب سے دریافت کیا، ”کیا مَیں لٹیروں کا تعاقب کروں؟ کیا مَیں اُن کو جا لوں گا؟“ رب نے جواب دیا، ”اُن کا تعاقب کر! تُو نہ صرف اُنہیں جا لے گا بلکہ اپنے لوگوں کو بچا بھی لے گا۔“
پس داوود و ششصد نفر همراهان او به راه افتادند تا به وادی بسور رسیدند.
تب داؤد اپنے 600 مردوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ چلتے چلتے وہ بسور ندی کے پاس پہنچ گئے۔ 200 افراد اِتنے نڈھال ہو گئے تھے کہ وہ وہیں رُک گئے۔ باقی 400 مرد ندی کو پار کر کے آگے بڑھے۔
دویست نفرشان آن‌قدر خسته شده بودند که یارای پیش رفتن نداشتند. امّا داوود با چهارصد نفر دیگر به راه خود ادامه دادند.
تب داؤد اپنے 600 مردوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ چلتے چلتے وہ بسور ندی کے پاس پہنچ گئے۔ 200 افراد اِتنے نڈھال ہو گئے تھے کہ وہ وہیں رُک گئے۔ باقی 400 مرد ندی کو پار کر کے آگے بڑھے۔
مردان داوود در سر راه خود با جوانی مصری در صحرا برخوردند و او را پیش داوود آوردند. آن شخص، سه شبانه‌روز چیزی نخورده بود، پس نان و آبی به او دادند تا بخورد.
راستے میں اُنہیں کھلے میدان میں ایک مصری آدمی ملا اور اُسے داؤد کے پاس لا کر کچھ پانی پلایا اور کچھ روٹی،
همچنین یک تکه نان انجیر و دو خوشهٔ کشمش به او دادند. وقتی‌که او سیر شد و حالش بجا آمد،
انجیر کی ٹکی کا ٹکڑا اور کشمش کی دو ٹکیاں کھلائیں۔ تب اُس کی جان میں جان آ گئی۔ اُسے تین دن اور رات سے نہ کھانا، نہ پانی ملا تھا۔
داوود از او پرسید: «کیستی و از کجا آمده‌ای‌؟» او گفت: «من یک مصری و غلام یک عمالیقی هستم. سه روز پیش مریض شدم و به همین خاطر اربابم مرا ترک کرد.
داؤد نے پوچھا، ”تمہارا مالک کون ہے، اور تم کہاں کے ہو؟“ اُس نے جواب دیا، ”مَیں مصری غلام ہوں، اور ایک عمالیقی میرا مالک ہے۔ جب مَیں سفر کے دوران بیمار ہو گیا تو اُس نے مجھے یہاں چھوڑ دیا۔ اب مَیں تین دن سے یہاں پڑا ہوں۔
ما به منطقهٔ کریتیان که در جنوب یهوداست و جنوب کالیب حمله کردیم و شهر صقلغ را آتش زدیم.»
پہلے ہم نے کریتیوں یعنی فلستیوں کے جنوبی علاقے اور پھر یہوداہ کے علاقے پر حملہ کیا تھا، خاص کر یہوداہ کے جنوبی حصے پر جہاں کالب کی اولاد آباد ہے۔ شہر صِقلاج کو ہم نے بھسم کر دیا تھا۔“
داوود به او گفت: «آیا حاضری مرا پیش آنها ببری؟» او جواب داد: «اگر به نام خدا قسم بخوری که مرا نکشی و به دست اربابم نسپاری، من تو را پیش آنها می‌برم.»
داؤد نے سوال کیا، ”کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہ لٹیرے کس طرف گئے ہیں؟“ مصری نے جواب دیا، ”پہلے اللہ کی قَسم کھا کر وعدہ کریں کہ آپ مجھے نہ ہلاک کریں گے، نہ میرے مالک کے حوالے کریں گے۔ پھر مَیں آپ کو اُن کے پاس لے جاؤں گا۔“
وقتی او داوود را پیش عمالیقیان برد، دید که آنها بساط خود را در همه‌جا پهن کرده می‌خوردند و می‌نوشیدند و به‌خاطر آن‌همه غنیمتی که از کشور فلسطینیان و یهودا به دست آورده بودند، جشن گرفته بودند.
چنانچہ وہ داؤد کو عمالیقی لٹیروں کے پاس لے گیا۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ عمالیقی اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے بڑا جشن منا رہے ہیں۔ وہ ہر طرف کھانا کھاتے اور مَے پیتے ہوئے نظر آ رہے تھے، کیونکہ جو مال اُنہوں نے فلستیوں اور یہوداہ کے علاقے سے لُوٹ لیا تھا وہ بہت زیادہ تھا۔
داوود و همراهانش، در سپیده دَم به آنها حمله کردند و تا شام روز دیگر به کشتار آنها پرداختند. به غیراز چهارصد نفرشان که بر شترهای خود سوار شدند و فرار کردند، کس دیگری نتوانست بگریزد.
صبح سویرے جب ابھی تھوڑی روشنی تھی داؤد نے اُن پر حملہ کیا۔ لڑتے لڑتے اگلے دن کی شام ہو گئی۔ دشمن ہار گیا اور سب کے سب ہلاک ہوئے۔ صرف 400 جوان بچ گئے جو اونٹوں پر سوار ہو کر فرار ہو گئے۔
داوود همهٔ افراد و همهٔ چیزهایی را که عمالیقیان به غنیمت گرفته بودند دوباره به دست آورد و دو زن خود را هم نجات داد.
داؤد نے سب کچھ چھڑا لیا جو عمالیقیوں نے لُوٹ لیا تھا۔ اُس کی دو بیویاں بھی صحیح سلامت مل گئیں۔
هیچ چیزی از آنها کم نشد، نه خرد و نه بزرگ، نه پسر و نه دختر، همه‌چیز را دوباره به دست آوردند.
نہ بچہ نہ بزرگ، نہ بیٹا نہ بیٹی، نہ مال یا کوئی اَور لُوٹی ہوئی چیز رہی جو داؤد واپس نہ لایا۔
داوود همچنین گلّه‌ها و رمه‌ها را پس گرفت و مردم آنها را پیشاپیش خود می‌راندند و می‌گفتند: «اینها همه غنایم داوود است.»
عمالیقیوں کے گائےبَیل اور بھیڑبکریاں داؤد کا حصہ بن گئیں، اور اُس کے لوگوں نے اُنہیں اپنے ریوڑوں کے آگے آگے ہانک کر کہا، ”یہ لُوٹے ہوئے مال میں سے داؤد کا حصہ ہے۔“
وقتی داوود به وادی بسور برگشت به آن دویست نفری که به‌خاطر خستگی نتوانستند همراه او بروند گفت: «صلح و سلامتی بر شما باد.»
جب داؤد اپنے آدمیوں کے ساتھ واپس آ رہا تھا تو جو 200 آدمی نڈھال ہونے کے باعث بسور ندی سے آگے نہ جا سکے وہ بھی اُن سے آملے۔ داؤد نے سلام کر کے اُن کا حال پوچھا۔
امّا بعضی از اشخاص پست و شرور که در بین همراهان داوود بودند گفتند: «چون اینها با ما نیامدند، پس از غنایمی هم که به دست آورده‌ایم، چیزی به آنها نمی‌رسد. فقط زن و فرزندان خود را بگیرند و پی کار خود بروند.»
لیکن باقی آدمیوں میں کچھ شرارتی لوگ بڑبڑانے لگے، ”یہ ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے آگے نہ نکلے، اِس لئے اِنہیں لُوٹے ہوئے مال کا حصہ پانے کا حق نہیں۔ بس وہ اپنے بال بچوں کو لے کر چلے جائیں۔“
امّا داوود گفت: «نه برادران، این کار را نکنید! شکرگزار باشید که خداوند ما را حفظ کرد و به ما کمک نمود که دشمن خود را شکست بدهیم.
لیکن داؤد نے انکار کیا۔ ”نہیں، میرے بھائیو، ایسا مت کرنا! یہ سب کچھ رب کی طرف سے ہے۔ اُسی نے ہمیں محفوظ رکھ کر حملہ آور لٹیروں پر فتح بخشی۔
در این مورد من با شما موافق نیستم. هرکس حق مساوی دارد. خواه به جنگ رفته باشد، خواه از اموال و اثاثیه مراقبت کرده باشد.»
تو پھر ہم آپ کی بات کس طرح مانیں؟ جو پیچھے رہ کر سامان کی حفاظت کر رہا تھا اُسے بھی اُتنا ہی ملے گا جتنا کہ اُسے جو دشمن سے لڑنے گیا تھا۔ ہم یہ سب کچھ برابر برابر تقسیم کریں گے۔“
از همان روز به بعد این قانون را در بین اسرائیل مرسوم ساخت که تا به امروز باقی است.
اُس وقت سے یہ اصول بن گیا۔ داؤد نے اِسے اسرائیلی قانون کا حصہ بنا دیا جو آج تک جاری ہے۔
وقتی داوود به صلقغ آمد یک سهم از غنیمت را برای دوستان و رهبران یهودا با این پیغام فرستاد: «اینها هدیه‌ای است که از دشمنان خداوند به غنیمت گرفته‌ایم.»
صِقلاج واپس پہنچنے پر داؤد نے لُوٹے ہوئے مال کا ایک حصہ یہوداہ کے بزرگوں کے پاس بھیج دیا جو اُس کے دوست تھے۔ ساتھ ساتھ اُس نے پیغام بھیجا، ”آپ کے لئے یہ تحفہ رب کے دشمنوں سے لُوٹ لیا گیا ہے۔“
هدایایی هم به شهرهایی فرستاد که او و همراهانش به آنجا سفر کرده بودند، یعنی بیت‌ئیل، راموت جنوبی، یتیر،
یہ تحفے اُس نے ذیل کے شہروں میں بھیج دیئے: بیت ایل، رامات نجب، یتیر،
عروعیر، سفموت، اشتموع،
عروعیر، سِفموت، اِستموع،
راکال، قینیان،
رکل، حُرمہ، بورعسان، عتاک اور حبرون۔ اِس کے علاوہ اُس نے تحفے یرحمئیلیوں، قینیوں اور باقی اُن تمام شہروں کو بھیج دیئے جن میں وہ کبھی ٹھہرا تھا۔
حُرما، بورعاشان، عتاق
رکل، حُرمہ، بورعسان، عتاک اور حبرون۔ اِس کے علاوہ اُس نے تحفے یرحمئیلیوں، قینیوں اور باقی اُن تمام شہروں کو بھیج دیئے جن میں وہ کبھی ٹھہرا تھا۔
و حبرون.
رکل، حُرمہ، بورعسان، عتاک اور حبرون۔ اِس کے علاوہ اُس نے تحفے یرحمئیلیوں، قینیوں اور باقی اُن تمام شہروں کو بھیج دیئے جن میں وہ کبھی ٹھہرا تھا۔